Newspaper Article 23/09/2014
ہندوستان میں برسرِ اقتدار مودی سرکار نے اپنے ۱۰۰ دن پورے کر لئے ہیں۔انتخابی مہم میں ’’بی جے پی‘‘نے عوام سے وعدے کیے تھے کہ مودی کی سربراہی میں ’’بی جے پی‘‘کی حکومت میں آنے کی دیر ہے ،فوری طور پر عوام کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے۔
لہذا ابتدائی ۱۰۰ دنوں کی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے بھارت کے اندر اور باہر طرح طرح کے تجزیے سامنے آ رہے ہیں ۔راقم کی رائے میں اگرچہ بھارتی وزیرِ اعظم نے بیرونی ملکوں کے کئی دورے کیے ہیں اور بظاہر ان کی کامیابی کے بھی دعوے سامنے آ رہے ہیں مگر زمین پر اس حوالے سے تا حال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ مودی کی حلفِ وفاداری کی تاریخ میں ۲۶ مئی کو پاکستان سمیت سبھی سارک سربراہوں نے شرکت کی تھی۔مگر تاحال اس کے بعد کی پیش رفت یہ ہے کہ ہندوستانی وزیرِ اعظم نے نیپال اور بھوٹان کا دورہ کیا۔اس دوران مبینہ طور پر کئی معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے۔برازیل میں ’’برکس‘‘ سربراہ کانفرنس میں بھی مودی نے شرکت کی۔علاوہ ازیں ۳۱ اگست تا ۳ ستمبر جاپان کا دورہ کیا۔اس کے فوراً بعد آسٹریلوی وزیرِ اعظم دہلی آئے اور ۱۷ ستمبر سے چین کے صدر نے بھارت کا دورہ کیا۔علاوہ ازیں ۲۹ اور ۳۰ ستمبر کو مودی امریکی صدر ’’براوبامہ‘‘ سے بھی ملاقات کریں گے اور اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں سائڈ لائن ملاقاتوں میں کئی دوسرے ملک کے سربراہوں سے بھی ملاقات متوقع ہے۔بھارتی وزیرِ خارجہ ’’سشما سوراج‘‘ کے بقول اس دوران وزیرِِ اعظم نواز شریف سے مودی کی ملاقات خارج از امکان نہیں ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جس طرح دہلی سرکار نے ۲۵ اگست کو ہونے والے خارجہ سیکرٹری مذاکرات یک طرفہ طور پر منسوخ کیے،اس سے امن پسند حلقوں کو اچھا پیغام نہیں دیا جا سکا۔دوسری جانب پاکستان میں آئے حالیہ سیلاب کے ضمن میں معتدل حلقوں کی رائے یہ ہے کہ بھارت نے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے بڑے پیمانے پر پاکستان آنے والے دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جس سے خوفناک حد تک نقصان ہوا ہے۔ایسے میں بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں امداد کی پیش کش کو کسی بھی غیر جانبدار حلقے نے سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ مبصرین نے کہا ہے کہ اس نام نہاد بھارتی پیش کش کو سیاسی اور سفارتی پوائنٹ سکورننگ کے علاوہ غالباً کوئی بھی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا ۔اس کے باوجود پاکستان کی جانب سے مودی کی اس پیش کش کو سراہا گیا ہے جسے معتدل حلقوں نے پاک حکومت اور عوام کی جانب سے خیر سگالی کے غیر معمولی اظہار کا جذبہ قرار دیا ہے۔
خود بھارت کے اندر ان ۱۰۰ دنوں میں اقلیتوں خصوصاً بھارتی مسلمانوں کے خلاف ۶۵۰ سے زیادہ فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات ہو چکے ہیں ،(انڈین ایکسپریس ۹ اگست ۲۰۱۴ )
علاوہ ازیں ’’لو جہاد‘‘ کے نام پر جنونی ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلا پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر ان سے شادی کر رہے ہیں۔اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں انتہائی شر انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔
اناؤ (یو پی) سے ’’بی جے پی‘‘کے رکن لوک سبھا ’’ساکشی مہاراج‘‘ نے ۱۴ ستمبر کو زہر افشانی کرتے ہوئے کہ ہے کہ ’‘لوجہاد‘‘ انتہائی منظم طریقے سے چلایا جا رہا ہے اور کسی بھی سکھ لڑکی کو بہلا کر مسلمان کرنے کے لئے 11 لاکھ فی کس ،ہندو لڑکی کے ۱۰ لاکھ اور جین دھرم کی لڑکی کے لئے ۴ لاکھ مسلمانوں کو دیے جاتے ہیں‘‘۔ ۱۳ ستمبر کو یہی بات مدھیہ پردیش ’’بی جے پی ‘‘کی نائب صدر ’’اوشا ٹھاکر‘‘ اور وی ایچ پی کے ’’پروین تگوڑیا‘‘ نے بھی کہا کہ ’’نو راتری کے جلوس میں شناختی کارڈ دے کر داخلے کی اجازت دی جائے تا کہ کوئی مسلمان نو جوان ان جلوسوں میں ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کے لئے شامل نہ ہو سکیں ۔مبصرین نے ہندو جنونیوں کی جانب سے چلائی جانے والی اس مہم کے انتہائی خطر ناک قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں بھا رت میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
دوسری طرف ’’بی بی سی‘‘کے بقول غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بھارتیوں کی تعداد ۲۶ کروڑ سے بڑھ کر ۳۷ کروڑ ہو گئی ہے ۔بھارتی یومِ آزادی کی اپنی تقریب میں مودی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ ۴ برسوں میں لڑکیوں کے سکولوں میں کم از کم ایک ٹوائیلٹ بنایا جائے گا ۔مبصرین کے مطابق صرف اسی بات سے دہلی سرکار کے خوشحالی کے دعوؤں کی قلعی بخوبی کھل جاتی ہے اور پاکستان میں جو حلقے بھارت کی ترقی و خوشحالی کے گن گاتے نہیں تھکتے،شاید وہ اس جانب کچھ توجہ دیں۔
اکیس ستمبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
)مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)