Newspaper Article 22/01/2015
ممتاز ہندو ماہر اقتصادیات اور کولمبیا یونیور سٹی کے پروفیسر ’’ جگدیش بھگوتی ‘‘ نے بھارت کے کثیر الاشاعت انگلش روزنامے ’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘ کی 14 جنوری 2015 کی اشاعت میں ’’ ساگریکا گھوش ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہندوستان ایک بڑا مگر چھوٹی ذہنیت کا حامل ملک ہے ‘‘ ۔ ان کے اصل الفاظ یہ ہیں ’’ India is that. it is a big country with the mentality of a small country ‘‘
اسی پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ اس ہندو دانشور کی بات بالکل بجا ہے جس کا واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ انڈین آرمی اور بھارتی حکومت کی جانب سے گذشتہ چند ہفتوں سے مسلسل یہ واویلا کیا جا رہا ہے کہ صدر اوبامہ کے مجوزہ دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات متوقع ہیں ۔ اس ضمن میں بھارتی حکام کی جانب سے مختلف طرح کے فسانے تراشے گئے اور بے بنیاد الزام تراشی کی جا رہی ہے ۔
اسی پس منظر میں انڈین آرمی کی 16 ویں کور کے سربراہ ’’ لیفٹیننٹ جنرل ایچ کے سنگھ ‘‘ نے 15 جنوری کو انڈین آرمی ڈے کے موقع پر ایک پوری رام کہانی گھڑ کر سنائی جس میں موصوف نے دعویٰ کیا کہ ’’ پیر پنجال ‘‘ کے مقام پر ’’ ایل او سی ‘‘کی دوسری جانب دو سو سے زائد در انداز بھارت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس ے دو روز پہلے 12 جنوری کو بھارتی فوج کے سربراہ ’’ جنرل دلباغ سنگھ سوہاگ ‘‘ نے بھی ایک لمبا چوڑا بیان اسی پیرائے میں دیا ۔ اسی کے ساتھ انڈین ڈیفنس منسٹر ’’ منوہر پریاکر ‘‘ نے بھی خاصی طوالت کے ساتھ گوہر افشانی کی ۔
اس صوتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ اس معاملے کے ظاہری طور پر دو محرکات ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ امریکی متعلقہ اداروں کو بھارتی افواج اور خفیہ اداروں کی صلاحیتوں پر خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتماد نہیں ہے اسی وجہ سے وہ دہلی سرکار سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔
علاوہ ازیں اس امر کے پسِ پردہ دوسرا عنصر یہ بھی ہے کہ بھارت سرکار ہمیشہ کی مانند پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں کو عالمی برادری میں بدنام کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کی خاطر یہ لغو پراپیگنڈہ کر رہی ہے ۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ اوبامہ امریکہ کے واحد صدر ہیں جو اپنے اقتدار کے دوران دوسری بار بھارت کا دورہ کر رہے ہیں ۔ موصوف 25 تا 27 جنوری کو تین روزہ دورے پر بھارت کا دورہ کریں گے اور 26 جنوری کو بھارتی یومِ جمہوریہ کی تقریب میں مہمانِ خصوصی ہوں گے ۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے اوبامہ نے 6 سے 8 نومبر 2010 کو بھارت کا دورہ کیا اور 2008 میں اپنے انتخاب سے محض چند روز پہلے انھوں نے اپنی انتخابی تقریر میں وعدہ کیا تھا کہ انتخاب جیتنے کی صورت میں و ہ مسئلہِ کشمیر حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے اور نومبر 2008 کے پہلے ہفتے میں وہ انتخاب جیت بھی گئے ۔ ان کے منتخب ہونے کے محض 20 روز بعد 26 نومبر کو ممبئی میں دہشتگردی کے واقعات ظہور پذیر ہوئے اکثر غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ ممبئی دہشتگردی کی وجہ سے علاقائی اور عالمی فضا کچھ ایسی نوعیت اختیار کر گئی جس کی وجہ سے اوبامہ کو کشمیر کے حوالے سے اپنا انتخابی وعدہ یاد تک نہ رہا لہذا ممبئی کی واردات بھلے ہی جس نے بھی کی ہو ، اس کا فائدہ صرف اور صرف بھارت کو ہوا اور نقصان پاکستان کو ۔
بہرحال نومبر 2010 میں جب اوبامہ بھارت آئے تو کچھ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ دنیا بھر کے محروم طبقات کے ساتھ ساتھ کشمیر یوں کو بھی ان کا پیدائشی حق دلانے کی جانب سنجیدہ توجہ دیں گے کیونکہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اس دیرینہ تنازع کی بابت بہت واضح موقف اختیار کیا تھا مگر موصوف نے اپنے گذشتہ دورہ بھارت کے دوران اپنے تمام دعووں کے برعکس نہ تو کشمیر پر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا اور نہ ہی اس بابت سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بلکہ وہ اپنی پچھلی یاترا کے دوران دہلی کے حکمران ٹولے کو یہ نوید سنا گئے کہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے بھارت کی رکنیت کے حامی ہیں ۔
بہرکیف اسی تناظر میں اوبامہ بھارت کا دوسرا دورہ کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کے انسان دوست حلقے منتظر ہیں کہ سب سے موثر مملکت کا سربراہ انسانی حوالے سے اس بار کیا طرزِ عمل اپنا تا ہے ۔ اس بات سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ حالیہ تاریخ کا سب سے با اختیار حکمران اور اس کا ملک مسلمہ انسانی اور اخلاقی قدروں پر کس قدر یقین رکھتے ہیں اور اس ضمن میں وہ اپنی انسانی ذمہ داریوں کو کس حد تک اہمیت دینے کے قائل ہیں ۔
اکیس جنوری کو نوائے وقت اور روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )