Newspaper Article 04/05/2015
یکم مئی کو دنیا بھر کی مانند بھارت میں بھی محنت کشوں کا عالمی دن منایا گیا ۔ اس موقع پر بھارت کے طول و عرض میں مختلف ریلیوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے کسانوں اور مزدوروں کے جذبہ محنت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور ہندوستانی حکمرانوں نے ان کی فلاح و بہبود کے ضمن میں مزید لمبے چوڑے وعدے کیے ۔ کانگرس کے نائب سربراہ ’’ راہل گاندھی ‘‘ نے اس موقع پر مہاراشٹر کے شہر ’’ امراوتی ‘‘سے 15 کلومیٹر پیدل چل کر کسان ریلی میں شرکت کی ۔ دوسری جانب بھارتی وزیر خزانہ ’’ ارون جیتلی ‘‘ نے اپوزیشن جماعتوں کی نقطعہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت مزدوروں اور کسانوں کے لئے بہت کچھ کر رہی ہے اور یہ بھارتی تاریخ کی پہلی ’’ سوجھ بوجھ والی سرکار ‘‘ ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ مودی اور ان کے ساتھیوں نے حکومت سنبھالنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ بیرونِ ملک کے خصوصاً سوئس بینکوں میں موجود بھارتی سرمایہ داروں کا کالا دھن واپس لایا جائے گا جس سے پہلے سو دن کے اندر ہی ہر بھارتی شہری کے اکاؤنٹ میں کم از کم 15 لاکھ روپیہ جمع ہو سکے گا مگر اب جب کہ ان کو حکومت میں آئے گیارہ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر وعدہ پورا کرنے کی بجائے کے صدر ’’ امت شاہ ‘‘ نے کہا ہے کہ 15 لاکھ والی بات تو مودی جی نے محض محاورتاً کہی تھی اور یہ جملہ اسی پس منظر میں استعمال کیا گیا تھا‘‘ ۔ اسی وجہ سے ناقدین ’’ بی جے پی ‘‘ کو ’’ بھارتی جملے باز پارٹی ‘‘ کا نام دے رہے ہیں ۔
بہرکیف 22 اپریل کو دہلی میں ’’ گجندر سنگھ ‘‘ نامی کسان نے اپنے گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کر لی ۔ یہ سانحہ تب پیش آیا جب عام آدمی پارٹی کسانوں کے حق میں بڑا جلسہ منعقد کر رہی تھی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ ’’ا روند کیجریوال ‘‘ اور نائب وزیر اعلیٰ ’’ منیش سسودھیا ‘‘ مہمانِ خصوصی کے طور پر لمبے چوڑے بھاشن دے رہے تھے اور یہ جلسہ کسانوں کو در پیش مسائل دور کرنے کے حوالے سے کسان ریلی کے نام سے منعقد کیا جا رہا تھا ۔ جلسے کے سٹیج سے محض 100 فٹ کے فاصلے پر یہ واقعہ ہوا ۔ یہ شخص صوبہ راجستھان کے ضلع ’’ دوسہ ‘‘ کے قصبے ’’ باندی کُوئی ‘‘ کا رہنے والا تھا ۔ جب یہ کسان درخت پر چڑھا اور اس نے بلند آواز سے خود کشی کرنے کی دھمکی دی تو دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال ‘‘ وہاں موجود پولیس حکام کو کہتے رہے کہ اسے خود کشی سے باز رکھا جائے مگر نہ تو پولیس کے کسی افسر یا جوان نے اس جانب ذرا سی بھی توجہ دی اور نہ ہی ’’ کیجریوال ‘‘سمیت کسی سیاسی رہنما نے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی تکلیف گوارا کی ۔
اس سانحے نے وقتی طور پو بھارتی میڈیا اور حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ مہاراشٹر اور دوسرے صوبوں میں تو اوسطاً روزانہ 40 سے 45 کسان خود کشی کرتے ہیں مگر پایہ تخت دہلی میں ایسا واقعہ پہلی بار ہوا ہے وہ بھی دہلی کے وزیر اعلیٰ اور سینکڑوں پولیس اہلکاروں میں ۔واضح رہے کہ مہاراشٹر کے خطے ’’ ودربھا ‘‘میں محض تین ماہ کے دوران تین سو اٹھائیس کسان مالی مشکلا ت کی وجہ سے خود کو موت کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 26 مئی 2014 کو جب مودی نے حکومت سنبھالی تھی تو کسانوں سمیت سبھی بھارتیوں کو اچھے دنوں کی آمد کے ایسے سہانے خواب دکھائے تھے کہ ان کے حکومت میں آنے کی دیر ہے گویا بھارت کے سبھی مسائل دور ہو جائیں گے ۔ مگر محض گیارہ مہینوں کے اندر عام ہندوستانیوں کے خواب بری طرح چکنا چور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ اسی لئے 21 اپریل کو لوک سبھا کے اجلاس میں کانگریس کے نائب سربراہ ’’ راہل گاندھی ‘‘ نے مودی حکومت کو ’’ سوٹ بوٹ والی سرکار ‘‘ قرار دیا تو بھارتی میڈیا اور عام لوگوں نے ’’ راہل ‘‘ کی اس بات کی زبردست پذیرائی کی۔
اکثر مبصرین اس امر پر متفق ہیں کہ مودی نے غیر ملکی دوروں میں لمبی چوڑی تقریروں ، نئی تراش کے بیش قیمت لباس پہننے کے علاوہ عوامی مسائل کے حل کی جانب ذرا سی بھی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں ہندوستانی عوام بری طرح مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کو لگ رہا ہے کہ پہلے تقریباً 60 برس تک کانگرسی ان کا استحصال کرتے رہے اور اب یہی کام ’’ بی جے پی ‘‘ نے سنبھال لیا ہے ۔ بھارتی حکمران اپنی ساری توانائیاں اسلحہ بارود کے ذخائر جمع کرنے پر صرف کر رہے ہیں ۔ انہیں شاید علم ہی نہیں کہ عام ہندوستانی کو ’’ اگنی ‘‘ اور’’ پرتھوی ‘‘میزائلوں کی بجائے دو وقت کی روٹی ، پینے کا صاف پانی اور بیماری کی حالت میں دوائی درکار ہے ۔
واضح رہے کہ بھارت کی راجدھانی دہلی میں خودکشی کرنے والے ’’ گجندر سنگھ ‘‘ نے جو تحریر چھوڑی ہے ، اس میں مرنے والے نے راجستھان کی صوبائی سرکار اور دہلی کی مرکزی حکومت کو بہت کھری کھری سنائیں ہیں اور اپنی تحریر کے آخر میں طنزیہ طور پر ’’ جے جوان ‘‘ ’’ جے کسان ‘‘ کا نعرہ درج کیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جب اس کے گاؤں پولیس پہنچی تو معلوم ہوا کہ 22 اپریل کو ہی اس کی دو بھتیجیوں کی شادی تھی جن کی بارات آئی ہوئی تھی اس کے گاؤں کے سرپنچ نے پولیس کو کہا کہ ’’پہلے لڑکیوں کی شادی مکمل ہو لینے دیں ، تب یہ خبر سنائیں کیونکہ گھر والوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ اس موقع پر شادی کی خوشیاں منائیں یا مرنے والے کا ماتم کریں‘‘ ۔
بہرحال یہ ایسے انسانی المیے ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا سکتا ہے کہ عام ہندوستانی ، افلاس کی کس دلدل میں دھنس چکے ہیں مگر دہلی کے حکمرانوں پر عالمی طاقت بننے کا خبط سوار ہے ۔ اور وہ اپنے عوام کے مصائب دور کرنے کی بجائے پڑوسی ملکوں کے خلاف بالا دستی کے عزائم اور نہتے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کے نت نئے ہتھکنڈے آزمانے میں مصروف ہیں ۔ایسے میں بھارتی عوام کی بہتری کے لئے محض دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔
دو مئی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لیے اسلام آباد پالیسی ریسرچ ا نسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )