Newspaper Article 27/11/2013
15 نومبر (10 محرم) کو راولپنڈی میں بدترین تشدد کا جو المناک سانحہ پیش آیا اس نے بجا طور پر قومی سطح پر نئی تشویش کو جنم دیا ہے کیونکہ اس امر سے غالباً کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ تشدد آج تک کسی بھی مسئلہ کا حل ثابت نہیں ہوا۔ مبصرین کے مطابق اس حوالے سے اگرچہ قومی،مذہبی اور سیاسی قیادت کا رویہ خاصا مدبرانہ رہا ہے اور اس نے اپنے ردعمل میں اس افسوس ناک سانحہ کی مذمت جاں بحق ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ حکومت کی جانب سے ان کے پسماندگان کی عملی معاونت کا عندیہ ظاہر کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ غمزدہ خاندانوں کے دکھوں میں قدرے کمی کا پختہ ارادہ رکھتی ہے۔
اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کے محرکات کی بابت میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مختلف خدشات و امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کیونکہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد اس قسم کا ردعمل ایک فطری سی بات ہے۔
سنجیدہ حلقوں کی جانب سے رائے ظاہر کی گئی ہے کہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ اسلام میں مذہبی رواداری کی روشن مثالیں موجود ہیں بلکہ خود قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے “دین میں کوئی زبر دستی نہیں” اور “تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین” یعنی رسول اکرمؐ سے فرمایا گیا کہ آپؐ مخالفین کے رویہ سے دل برداشتہ نہ ہوں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ یوں بھی حضورؐ کی پوری زندگی تحمل اور رواداری کی عملی تفسیر ہے۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی اسلامی لشکروں کی روانگی کے وقت انھیں تاکید کی جاتی تھی کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں تک کو نشانہ نہ بنائیں اور جنگ میں بھی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ مذہبی رواداری اور برداشت کی اس سے بڑی مثالیں کیا ہوں گی۔
ایسے میں اگر بعض عناصر اپنے مخالف نظریات کے حامل افراد کو نشانہ بنائیں تو اس پر افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔ مبصرین کے مطابق گذشتہ 1400 سال سے زائد کی اسلامی تاریخ مین مختلف طبقات کے مابین نظریاتی اختلافات بوجوہ قائم رہے حالانکہ اس دوران مختلف بادشاہوں،بڑے بڑے عالمِ دین اور بزرگوں نے اپنی بساط کے مطابق یقیناً ان باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو گی مگر انھیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تبھی تو یہ گروہی اور مسلکی تضادات تا حال موجود ہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ دورِ حاضر میں تشدد یا کسی اور ذریعے سے ان اختلافات پر مکمل قابو پایا جا سکتا ہے تو یہ خوش فہمی کے علاوہ غالباً کچھ اور نہیں۔
اس ضمن میں خارجی عوامل کو بھی بظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ بھارت یا دوسری پاکستان مخالف قوتیں بھی فطری طور پر ایسے ماحول میں تعصبات کو فروغ دینے میں اپنا منفی کردار ادا کرنے سے بھلا کیوں باز آئیں گی بلکہ سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں انڈین آرمی میں”ٹی ایس ڈی” نامی خصوصی یونت کا قیام ہی اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ گذشتہ دنوں تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت نے کھلے الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان خصوصاً پنجاب کو اپنا ٹارگٹ بنائے گی۔
امید کی جانی چاہیے کہ صورتحال پر موثر ڈھنگ سے قابو پانے میں مذہبی و سیاسی قیادت،میڈیا اور سول سوسائٹی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کردار زیادہ منظم اور موثر انداز سے نبھائیں گے۔ یوں حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسے سانحات سے بچنے کے لئے قوم کا ہر فرد حصہ بقدرِ جثہ ذمہ داری نبھائے گا کیونکہ اگر ایک درخت سے ماچس کی ایک لاکھ تیلیاں بن سکتی ہیں تو ماچس کی ایک تیلی ایک لاکھ درختوں کو جلا سکتی ہے۔ اس مرحلے پر مذہبی و سیاسی قائدین نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی تو قومی انتشار میں اضافے کا خدشہ ہے۔ بقول اقبال
کوئی کارواں سے ٹوٹا،کوئی بدگماں حرم سے
کہ میرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
(روزنامہ نوائے وقت میں 19 نومبر کو شائع ہوا)