Newspaper Article 28/09/2015
اس کھلے راز سے ہر کوئی آگاہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں بھارت خود کو منی سُپر پاور سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور بالا دستی کی خواہش کے نتیجے میں اپنے سبھی پڑوسی ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات زیادہ تر کشیدگی پر مبنی رہے ہیں ۔ بھارت کی اس جارحانہ روش کا تازہ شکار نیپال ہے جہاں پر بیس ستمبر کو نیا آئین نافذ ہوا ہے ۔ یہ آئین نیپالی عوام اور آئین ساز اسمبلی کی دس سالہ محنت کے بعد عمل میں آیا ہے ۔
مگر بد قسمتی سے دہلی سرکار نے اس حوالے سے عجب قسم کی کھلی جارحیت کی روش اپنا لی ہے اور نیپال سے کہا جا رہا ہے کہ اس نے اس آئین میں ریاست نیپال کو ہندو ریاست کو درجہ دینے کی بجائے سیکولر ملک کیوں قرار دیا ہے ۔ یاد رہے کہ نیپالی آئین ساز اسمبلی نے دو تہائی اکثریت سے یہ آئین منظور کیا ہے ۔ ایسے میں بھارت کی اس ننگی جارحیت کے لئے تنقید کے الفاظ ڈھونڈ پانا بھی خاصا مشکل کام ہے ۔
واضح رہے کہ نیپال چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے ۔ 2013 کی ورلڈ بینک رپورٹ کے مطابق اس کی آبادی دو کروڑ اٹھتر لاکھ اور یوں آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا بھر میں 41 ویں نمبر پر ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 1,47,181 مربع کلو میٹر ہے رقبے کے اعتبار سے یہ دنیا بھر میں 93 ویں نمبر پر ہے ۔ اس کے شمال میں چین جبکہ باقی تینوں اطراف یعنی جنوب ، مشرق اور مغرب میں بھارت واقع ہے ۔ایک تنگ بھارتی راہداری ( جسے سلی کوڈی کاریڈور کہا جاتا ہے ) اسے بنگلہ دیش سے الگ کرتی ہے ۔ دنیا کی دس طویل ترین چوٹیوں میں سے آٹھ نیپال میں واقع ہیں جن میں بلند ترین چوٹی ’’ ماؤنٹ ایورسٹ ‘‘ بھی شامل ہے ۔ مذہبی اعتبار سے 81.3 فیصد آبادی ہندو نظریات کی حامل ہے جبکہ 9 فیصد بُدھ اور 4.4 فیصد مسلمان ہے ۔ اس کے علاوہ پانچ فیصد کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے ۔نیپال کے صدر ’’ ڈاکٹر رام بارن یادو ‘‘ ہیں اور وزیر اعظم کے منصب پر ’’ سوشیل کوئرالہ ‘‘ فائز ہیں ۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مارچ 1989 میں بھی بھارت نے خشکی سے گھرے اپنے اس چھوٹے ہمسایے ملک کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی تھی جو کئی ماہ تک جاری رہی جس کے نتیجے میں نیپال کے عوام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے دہلی کی حاکمانہ روش کے خلاف سر جھکانے اور اسے اپنا آقا ماننے سے انکار کر دیا تھا اور آزمائش کی اس گھڑی سے سر خر و ہو کر نکلے تھے ۔
گذشتہ چند دنوں سے بھارتی حکومت نے اپنے کئی اعلیٰ حکام کو نیپال بھیجا اور وہاں کی حکومت کو دھمکی آمیز لہجے میں نصیحت کی کہ نئے آئین کے نفاذ کا اعلان فی الحال ملتوی کر دیا جائے اور جب تک بھارتی تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا تب تک اس پر عمل در آمد روکا جائے ۔ اسی سلسلے میں 18 ستمبر کو بھارتی خارجہ سیکرٹری ’’ جے شنکر ‘‘ نے کھٹمنڈو کا خصوصی دورہ کیا اور نیپالی حکومت کو ہر قسم کی دھمکی اور لالچ دیا ۔ اس سے پہلے انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈووال بھی گذشتہ چند ماہ میں ایک سے زائد مرتبہ نیپال جا چکے ہیں ۔ خود وزیر اعظم مودی نے بھی اقتدارمیں آنے کے بعد بھوٹان کے بعد 3 تا 4 اگست اپنا دوسرا غیر ملکی دورہ نیپال کا کیا اور وہاں جا کر وہاں کے مشہور ’’ پشو پتی مندر ‘‘ میں لمبی چوڑی پوجا کی اور اس دوران نیپال کو بھارت کا عظیم ہندو ہمسایہ قرار دیا ۔
اس کے بعد نومبر 2014 میں نیپال میں سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تو تب بھی مودی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ گئے اور نیپالی حکمرانوں کو بالواسطہ اور بلا واسطہ ہر طرح سے دھمکیاں اور ترغیب دی کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ گر جوشی نہ دکھائیں اور دہلی کے احکامات کی پیروی کریں ۔ مگر ان کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں اور نیپال کی حکومت اور عوام اپنے اصولی موقف پر قائم رہے ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبا
ر نے چند روز پہلے بعنوان’’ مودی میکس اے لاٹ آف اوور سیز ٹرپس ، بٹ از ہی اے ڈپلومیٹک فیلیئر ود انڈیا ‘ز نیبرز ؟ ‘‘ لکھا ہے کہ ’’ بظاہر لگتا ہے کہ اگرچہ مودی نے غیر ملکی دوروں پر خصوصی زور رکھا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی خارجہ حکمت عملی بڑی کامیاب رہی ہے مگر لگتا ہے کہ جنوبی ایشیاء خصوصاً بھارت کے پڑوسی ممالک کے حوالے سے مودی پوری طرح ناکام رہے ہیں ۔ تبھی تو پاکستان کے بعد اب نیپال کے ساتھ بھی ان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں ۔ ‘‘
دوسری جانب غیر جانبدار مبصرین اس امر پر متفق ہیں کہ پڑوسی ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کے تمام تر دعووں کے باوجود پچھلے سولہ ماہ میں دہلی سرکار نے ایک جانب آٹھ جنوری کو منعقد ہونے والے سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں کھلم کھلا مداخلت کی اور اسی وجہ سے اٹھارہ دسمبر 2014 کو سابق سری لنکن حکومت نے کولمبو میں را کے سٹیشن چیف ’’ کے النگو ‘‘ کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک سے باہر نکال دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ آخری لمحات میں مودی نے 25 مارچ کا دورہ مالدیپ رد کر دیا اور وہاں کے صدر ’’ عبداللہ یامین ‘‘ کو دھمکی دی گئی کہ اگر سابقہ صدر ’’ نشید ‘‘ کے خلاف عدالتی کاروائی جاری رکھی گئی اور مالدیپ کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ختم نہ کیے گئے تو بھارت مالدیپ کو سبق سکھائے گا ۔
پاکستان میں ’’ را‘‘ کی مداخلت اور ’’ ایل او سی ‘‘ پر بھارتی اشتعال انگیزی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ افغانستان میں بھارتی مداخلت بھی ایک کھلا راز ہے ۔ نیپال میں بھارتی سفیر ’’ رنجیت رائے ‘‘ جس طرح وائسرائے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے ۔
ایسے میں عالمی برادری نے اگر اس بھارتی روش کی حوصلہ شکنی نہ کی تو علاقائی اور عالمی امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہو گا ؟ اس کا جواب کوئی جیوتشی ہی دے سکتا ہے !۔
اٹھائیس ستمبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )