Newspaper Article 02/05/2018
کون نہیں جانتا کہ سالانہ 50 ہزار افغان مہاجر بچوں کو پاکستانی سکولوں میں تعلیم و تربیت کے ساتھ وظائف مہیا کیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 3 ہزار سے زائد افغان طالبعلموں نے وطن عزیز کے مختلف تعلیمی اداروں سے علم و آگہی حاصل کی اور یہ سلسلہ ہنوذ موثر ڈھنگ سے جاری و ساری ہے۔ غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ سے اپنے سبھی ہمسایوں کے ساتھ بالعموم اور اسلامی ممالک کے ساتھ خاص طور پر بہتر تعلقات کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اور اس حوالے سے بھی افغانستان کا ذکر کریں تو پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کی تعمیر نو میں جو مثبت کردار ادا کر رہا ہے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ جو خطہ زمین گذشتہ ستر برسوں سے مملکت خداداد کا حصہ بنا اس کے تاریخی اور ثقافتی رشتے افغانستان کے ساتھ اتنے مضبوط اور ہمہ جہتی ہیں جن کی تفصیل سے غالباً ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔
دوسری جانب یہ امر بھی کوئی راز نہیں کہ اپریل 1978 میں جب 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان آنا شروع ہوئے تو پاکستانی معاشرے کے ہر حلقے کی جانب سے انھیں خوش آمدید کہا گیا اور تاریخ کا یہ باب تاحال اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی ملک دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے افغان بھائیوں کی مدد پاکستان سے زیادہ کی ہے مگر اسے حالات کی ستم ظریفی کہا جائے یا امریکہ اور بھارت کی سازشوں کا نام دیا جائے کہ بوجوہ پچھلے ڈیڑھ دو عشروں سے بیرونی مداخلت کے سبب پاک افغان تعلقات میں گہرائی اور گیرائی کا عنصر اس درجہ پر نہیں رہا جس کا یہ متقاضی و حقدار تھا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی ہے اور ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تمام تر نشیب و فراز کے باوجود ان کے مابین کوئی بڑی باہمی تلخی پیدا نہیں ہوئی جس کی بنیادی وجہ غالباً یہ تھی کہ بھارت کی آزادی کے فوراً بعد سے ہی ہندوستانی حکمران اس بابت خاصے واضح تھے کہ ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کو ہر ممکن طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کی تاریخ میں آنے والے نشیب و فراز بھی ان کے حوالے سے خاصے معاون ثابت ہوئے ۔
بھارت نے شعوری طور پر یہ کوشش کی کہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ’’مسلم انڈیا‘‘ بہرطور پاکستان کی بہ نسبت افغانستان کے زیادہ قریب رہا، اس حوالے سے برصغیر کی مسلم تاریخ کو بطور حوالہ استعمال کیا گیا اور تاج محل، دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعہ دہلی وغیرہ کو ’افغان بھارت مشترکہ ثقافتی ورثے ‘‘کیلئے بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔افغانستان کی تاریخ میں آئے اتار چڑھاؤ کے سارے عرصے کے دوران ’’کابل حکومت‘‘ کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ ’’ملا عمر‘‘ کی حکومت کی رخصتی کے نتیجے میں ’’حامد کرزئی‘‘ افغان صدارت پر متمکن ہوئے تو واقعات و حوادث ایک نئی صورت اختیار کر گئے جن کی اپنی تاریخ ہے اور اس میں بھارتی کردار، شمالی اتحاد، جنرل فہیم، رشید دوستم، اسماعیل خان وغیرہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس ضمن میں یہ بات خاصی توجہ کی حامل ہے کہ مزار شریف میں بھارتی مداخلت اس حد تک بڑھ گئی کہ اس وقت کے بھارتی سیکرٹری خارجہ ’’رگھو ناتھ‘‘ نے خصوصی طور پر مزار شریف کا دورہ کیا اور اس کے بعد افغانستان میں بد امنی کے فروغ کیلئے نئی نئی سازشیں ترتیب پائیں اور ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ۔
اس ضمن میں یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ ’’بامیان‘‘ میں بدھ کے مجسموں کو ’’را‘‘ اور کئی دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کی ملی بھگت سے جس طرح تباہ کیا گیا، اس نے بھی پاکستان کی بابت بھارتی ، بہت سے مغربی اور ایران وغیرہ کے عزائم کو تقویت پہنچائی اور یوں عملی طور پر پاکستان کی تمام تر قربانیوں کو امریکہ، انڈیا اور کچھ دیگر ممالک نے نظر انداز کیا اور پاکستان کو دانستہ نقصان پہنچانے کی ہر ممکن سعی کی اور یہ سلسلہ تاحال پوری شدومد سے جاری ہے۔
اس حوالے سے واجپائی دور میں بھی پاک مخالف سازشیں چلتی رہیں اور منموہن کے دس سالہ دور میں بھی یہ سلسلہ کہیں نہ تھما، اور پھر 2014 میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد تو گویا اس سلسلے میں پاک مخالف سازشی عناصر نے اپنی ساری حدود و قیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر وہ حربہ استعمال کیا اور کر رہے ہیں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ حالانکہ اس دوران پاکستان کی سبھی حکومتوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ افغانستان میں جاری اس چالیس سالہ بد امنی کا خاتمہ ہو سکے اور اس حوالے سے افواج پاکستان نے ضرب عضب اور رد الفساد کی شکل میں دہشتگردی کو شکست دینے کے ضمن میں ہر ممکن سعی کی اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں جن کا اعتراف خود بہت سے امریکی حلقوں میں بھی کیا جاتا ہے۔
یہ امر بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ بھارت کے بالا دست طبقات اپنے تمام ہمسایوں خصوصاً پاکستان کے خلاف انتہائی منفی ذہنیت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں محض مودی یا ’’بی جے پی‘‘ ہی نہیں بلکہ کانگریس بھی پاک دشمنی میں اسی حد تک ملوث رہی ہے لہذا اس سے بھی کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جانب ہم اپنے اندرونی معاملات کو مزید بہتر کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ دیں دوسری طرف بھارت کے تمام اعمال بشمول کلبھوشن یادو کی دہشتگردی کو دستاویزی شواہد کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے لایا جائے۔افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ امریکہ اور بھارت کی مصنوعی بیساکھیاں چھوڑ کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کاوش کرے کہ
خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں
کسی کو اپنے حصے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا
اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخری
کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا
انتیس اپریل کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)