Newspaper Article 10/03/2014
بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت توسیع پسندی کی کاروائیوں کے حوالے سے طویل تاریخ کی حامل ہے مگر اس کے باوجود
بی جے پی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے 22.2.2014 کو ارونا چل پردیش کے مقام ’’پسی گھاٹ‘‘Pasi ghaat میں تقریر کے دوران چین کے حوالے سے جو زبان استعمال کی اس کا لب و لہجہ اپنے آپ میں اس امر کا مظہر ہے کہ بھارت خصوصاً بی جے پی کے انتہا پسند حلقوں اور انڈین اسٹبلشمنٹ کے عزائم چین کی بابت کیسے ہیں؟۔مودی نے چین کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم ترک کر دے کیوں کہ ارونا چل پر دیش بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کی زمین کے ایک چپے پر بھی چین کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر چین نے بھارت کے خلاف اپنی روش تبدیل نہ کی تو اس کے نتائج چین کے حق میں بہتر نہ ہوں گے۔
اس موقع پر موصوف نے عوام سے یہ بھی کہا کہ انھوں نے کانگرس کو حکمرانی کے لئے ساٹھ سال کا عرصہ دیا ہے تو انھیں 60 ماہ عرصہ کا عرصہ اپنی سیوا کے لئے دے کر دیکھیں تو وہ اس دوران چین ،پاکستان اور سبھی جارحیت پسند قوتوں کواپنی روش بدلنے پر مجبور کر دیں گے۔
اس تقریر سے کچھ روز پہلے 28 دسمبر کو بھارت کے اکثر اخباروں میں یہ خبر نمایاں انداز سے شائع ہوئی تھی کہ انڈین آرمی نے چینی فوج اور دیگر چینی اداروں پر نظر رکھنے کے لئے ایک خصوصی تھنک ٹینک ’’چائنا سیل‘‘CHINA CELL کے نام سے بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد نہ صرف چینی افواج کی نقل و حرکت پر گہری نگاہ رکھنا ہو گا اور چین میں ہونے والی ہر معاشرتی ،سماجی ،اقتصادی اور سیاسی پیش رفت کو مانیٹر کرنا بھی ہو گا تا کہ انڈین آرمی چین میں اپنے اثر رسوخ کو پھیلا سکے اور علاقائی اور عالمی سطح پر چین کو ٹف ٹائم دیا جا سکے ۔
اس حوالے سے معتبر انگریزی اخبار ’’THE ASIAN AGE ‘‘ نے اپنی 28 دسمبر 2013 کی اشاعت میں اپنے نمائندے شری دھر کمار سوامی کی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق انڈین آرمی کا مجوزہ چائنا سیل بھارتی فوج کی شمالی،مشرقی اور سینٹرل کمانڈز کے اشتراک سے کام کرے گا ۔اس تھنک ٹیک میں چینی زبان جاننے والے اور چینی کلچر سے واقفیت رکنے والے ماہرین کو بھرتی کیا جائے گا ۔اور بھارتی حکومت نے بھی اس کے قیام کے لئے گرین سگنل دے دیا ہے ۔انڈین آرمی کی شمالی کمان(جس کا ہیڈ کوارٹر ادھم پور میں ہے)۔سینٹرل کمان(جس کا ہیڈ کوارٹر لکھنؤ میں ہے)وہاں پر اس ادارے کے ذیلی دفاتر قائم ہوں گے اور دونوں جگہوں پر انڈین آرمی کے تین حاضر سروس کرنل ادارے کے نائب سربراہ کے طور پر کام کریں گے جن کے ماتحت سینکڑوں افراد کا عملہ ہو گا۔
جبکہ چائنا سیل کا ہیڈ کوارٹر انڈین آرمی کی ایسٹرن کمان (جس کا ہیڈ کوارٹر کولکتہ میں ہے) وہاں ایک حاضر سروس برگیڈیئر اس ادارے کا سربراہ ہو گا۔اس سیل میں چین کو ہر شعبے میں زک پہنچانے کے لئے حکمتِ عملی مرتب کی جائے گی۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی امور کے چینی ماہرین نے کہا ہے کہ چائنا سیل کا قیام اس امر کا عکاس ہے کہ بھارت چین کے ساتھ کھلی محاذ ارائی کے نئے سلسلے کی شروعات کے عزائم پر عمل کا ارادہ بنا چکا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس ادارے کا قیام بنیادی طور پر انڈین آرمی کے موجودہ چیف ’’جنرل بکرم سنگھ‘‘ کی تحریک پر عمل میں آیا ہے جو خود کو چینی امور کا ماہر سمجھتے ہیں ۔
20.2.2014 کے ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس سیل کے قیام کے نتیجے میں بھارت اور چین کے مابین عدم اعتماد کی خلیج مزید گہری ہو سکتی ہے دوسری طرف چینی فوج کے ادارے ملٹری سائنسز اکیڈمی آف پیپلز لبریشن آرمی کے ریسرچر Ma Jun، CHINA INSTITUTE OF CONTEMPRARY INTERNATIONAL RELATIONS کے ماہر FU XIAOQIANG, ،اور CHINESE ASSOIATION FOR SOUTH ASIAN STUDIESکے WAN WEI نے کہا ہے کہ بھار ت کی جانب سے ایسے قدم کے نتیجے میں علاقے میں کشیدگی جنم لے سکتی ہے ۔علاوہ ازیں CHINA DAILY.Com.CN میں 19.02.2014 کو ZHAO YANRONG نے اپنی تحریر بعنوان NEW DEHLI SETS UP THINK TANK FOR TARGETING CHINA میں بھی تقریباً انھی خیالات کا اظہار کیا ہےغیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ بھارت اور چین کی چار ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر پہلے ہی وقتاًفوقتاً بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لہذا بھارت کی جانب سے اس نئی پیش رفت کے نتیجے میں چین کے حوالے سے بھارت کے منفی عزائم مزید کھل کر سامنے آ گئے ہیں جس پر دنیا بھر کے امن پسند حلقوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے ۔
12 مارچ کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
۔(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)