Newspaper Article 04/11/2015
ہندوستانی ادیب دانشور اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات مودی سرکار کی شدت پسند پالیسیوں کے خلا بطورِ احتجاج بڑی تعداد میں اپنے ایوارڈز واپس کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اب تلک 53 مورخین ، 45 سے زائد ادیب اور سائنسدان اپنے اعزازات واپس کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک سو سے زیادہ سائنسدانوں نے اپنے اجتماعی آن لائن پیغام میں اقلیتوں کے خلاف جاری ہندو انتہا پسندی کے سلسلے کو روکنے کی اپیل کی ہے ۔ ان تمام شخصیات میں ’’ نین تارا سہگل ‘‘ ، ’’ پٹوردن ‘‘ ، ’’ بینر جی ‘‘ ، بھا ر گو اور ’’ اوم تھانوی ‘‘ جیسے بڑے نام شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ بھارتی صدر ’’ پرنب مکر جی ‘‘، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ’’ کے ایل دتو ‘‘ اور ریسرو بینک آف انڈیا کے ’’ رگھو راجن ‘‘ بھی اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہندو انتہا پسندی پر مبنی یہ سلسلہ بھارت کی اقتصادی ، سیاسی اور سماجی زندگی کو تہہ و بالا کر سکتا ہے ۔ عالمی سطح پر ’’ موڈیز ‘‘ نے بھی اس ضمن میں وارننگ جاری کی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برٹش سول سوسائٹی بھی اس بابت اپنا اجتماعی انسانی کس حد تک نبھاتی ہے ۔کیونکہ بھارتی وزیر اعظم ’’ نریندر مودی ‘‘ مجوزہ طور پر بارہ نومبر سے برطانیہ کا دو روزہ دورہ کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ برطانیہ کے انسان دوست حلقے مودی کے ممکنہ دورے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ ان کا موقف یہ ہے کہ مودی جیسی شخصیت جس پر فروری 2002 کے اوائل میں صوبہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام ہے ۔ ایسے فرد کے لندن آنے سے عالمی سطح پر برطانیہ کی عزت میں قطعاً اضافہ نہیں ہو گا بلکہ عالمی برادری میں یہ پیغام جائے گا کہ انسانی حقوق کی علم برداری کے دعویدار برطانیہ میں اچھی روایات بڑی تیزی سے دم توڑ رہی ہیں ۔
اس ضمن میں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ ہفتے سابق برطانوی وزیر اعظم ’’ ٹونی بلیئر ‘‘ نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں ہونے والا حملہ بہت بڑی فاش غلطی تھی اور اس کے لئے موصوف خود کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں اور داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کے وجود میں آنے کے لئے خود کو شرمندہ محسوس کرتے ہیں ۔‘‘ یاد رہے کہ عراق پر حملے سے پہلے لندن میں لاکھوں برطانوی شہریوں نے مذکورہ حملے کی مخالفت میں جلوس نکالا تھا ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ تب امریکی اور برطانوی حکمرانوں نے لندن اور دیگر مغربی ممالک میں ہونے والے ان مظاہروں پر توجہ نہ دی مگر وقت نے ثابت کیا کہ مغربی حکمران طبقات کا یہ فیصلہ سرا سر غلط تھا ۔
انسان دوست حلقوں کے مطابق مودی کی لندن آمد بھی برطانوی حکومت کی اسی قسم کی غلطی ہو گی کیونکہ اپنے اس عمل سے انگلستان کے حکمران گویا دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ وہ مودی جیسی ہندو انتہا پسندی کی علم بردار شخصیت کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ مستقبل میں ایک اور ’’ ہندو داعش ‘‘ کے قیام کی راہ ہموار کر رہے ہیں جس کے نتائج آگے چل کر علاقائی اور عالمی ا من کو بری طرح متاثر کریں گے ۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ وکی لیکس کے مطابق دسمبر 2009 میں ’’ راہل گاندھی ‘‘ نے دہلی میں اس وقت کے ا مریکی سفیر ’’ ٹموتھی رومر ‘‘ سے کہا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں ہندو زعفرانی دہشتگرد القاعدہ اور طالبان سے بھی بڑے دہشتگرد گروہ بن کر ابھر سکتے ہیں اور ان سے عالمی امن کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ‘‘ ۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ راہل گاندھی کا یہ خدشہ بے بنیاد نہ تھا کیونکہ مئی 2014 میں ’’ بی جے پی ‘‘ نے ہندو انتہا پسندی کے نظریات کو ایکسپلائٹ کر کے ہٹلر کی مانند ووٹ کے ذریعے بھارتی اقتدار پر قبضہ کر لیا اور تب سے دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں ہندو شدت پسند بڑی تیزی سے حالات کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہے ہیں اور بھارت میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے جس کے شاہد دادری ، مظفر نگر اور ممبئی جیسے واقعات ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے دیگر پیمانوں پر بھی مودی اور ان کے ہم نوا کسی طور پورا نہیں اترتے ۔ ان کی قیادت میں ہندوستان کے اندر خواتین کے خلاف شدت پسندی آرڈر آف دی ڈے بن چکی ہے تبھی تو لالو پرشاد یادو کی صاحبزادی ’’ میسا بھارتی ‘‘ نے 28 اکتوبر کو کہا ہے کہ مودی جانتے ہی نہیں کہ خواتین کا احترام کس شے کا نام ہے ۔ یوں بھی جس شخص نے اپنی اہلیہ تک کو احترام کے قابل نہیں سمجھا ، اس سے دوسری عورتیں بھلائی کی کیا امید کر سکتی ہیں ۔
سالِ رواں کے اوائل میں ’’ بی بی سی ‘‘ نے ’’ ڈاٹرز آف انڈیا ‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم تیار کی جس میں مودی راج میں بھارتی خواتین کی حالت زار کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر دہلی سرکار نے بھارت میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی ۔ اسی کے ساتھ نچلی ذات کے ہندو اور ان کے معصوم بچوں کو زندہ جلانا مودی حکومت کی پہچان بن کر رہ گیا ہے اور ان کے وزیر اچھوت ہندوؤں کو ’’ کتوں ‘‘ سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ برطانوی حکومت مودی کو لندن بلانے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اور اگر موصوف وہاں جاتے ہیں ہیں تو کشمیری ، سکھ کے ساتھ ساتھ خود برطانوی سول سوسائٹی اور تمام انسان دوست حلقے ان کی آمد کے خلاف زبر دست احتجاجی تحریک چلائیں گے کیونکہ انسانیت کے خلاف موصوف کے جرائم تو اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے خلاف ’’ ملازو وِچ ‘‘ کی مانند خصوصی عالمی ٹربیونل میں انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم کے تحت مقدمات چلائے جائیں اور عالمی برادری ایسے افراد اور گروہوں کی موثر ڈھنگ سے حوصلہ شکنی کرے ۔
امید ہے کہ برطانوی اور عالمی میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا اجتماعی انسانی فریضہ احسن ڈھنگ سے نبھائے گا ۔
دو نومبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا رتحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )