Newspaper Article 25/05/2014
عوامی لیگ کی رہنما ’’شیخ حسینہ واجد‘‘ کی بھارت نواز پالیسیاں ایسا راز نہیں جس سے کوئی واقف نہ ہو بلکہ ہر ذی شعور بخوبی جانتا ہے کہ عوامی لیگ اور اس کی لیڈر عرصہ دراز سے ایک بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہیں اور اپنی اسی سوچ کے تسلسل میں موصوفہ نے 16 مئی 2014 کو نریندر مودی کی کامیابی پر جو تحریری مراسلہ لکھا ہے اس میں مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ بنگلہ دیش کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں اور غیر ملکی دوروں کے آغاز میں سب سے پہلے ڈھاکا کا دورہ کریں۔ اس ضمن میں مزید لکھا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت نے جوکردار ادا کیا اسے عوامی لیگ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور اس حوالے سے پوری بنگلہ دیشی قوم بھارت کی احسان مند ہے۔ مبصرین نے اس صوتحال پر تبصرہ کرتے کہا ہے کہ اپنے اس خط کے ذریعے حسینہ شیخ نے اس امر کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا ۔علاوہ ازیں عوامی لیگ کی قیادت کا مطمع نظر محض یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر دہلی سرکار کی خوشنودی حاصل کی جائے بھلے ہی بنگلہ دیشی عوام کی قومی عزت و غیرت کا سرِ بازار سودا کر دیا جائے۔ اسی ضمن میں غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یہ توقع کرنا کہ آنے والے دنوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات قابلِ رشک حد تک خوشگوار ہو جائیں گے محض خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں۔کیونکہ دونوں ممالک کے مابین نا صرف بہت سے سرحدی تنازعات موجود ہیں بلکہ ’’تیستا دریا ‘‘ کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور متنازعہ ہے جسے حل کر پانا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔واضح رہے کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر 54 دریاؤں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ ہر دریا کے معاملے میں بھارت اپنے مفادات کے حوالے سے بددیانتی کا مظاہرہ کرتا ہے حالانکہ 1972 میں اس مسئلے کے حل کے لئے جوائنٹ ریور کمیشن(Joint River Commision ) تشکیل پایا تھا مگر 42 سال کے طویل عرصے کے دوران محض ایک 30 سالہ معاہدہ تیستا پانی کے مسئلے کے حل کے لئے پایہ تکمیل کو پہنچا۔واضح رہے کہ ہمالیائی ریاست سکم پر بھارت نے 1975 میں ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔سکم سے ہی دریائے تیستا شروع ہوتا ہے اور بھارتی صوبے مغربی بنگال کے شمالی حصے سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش میں داخل ہو جاتا ہے۔جہاں 45 کلومیٹر پر محیط رقبے کو سیراب کرنے کے بعد دریائے ’’برہما پُتر‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے۔اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین 1983 میں عبوری دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت بھارت نے 39 فیصد پانی لیا جبکہ بنگلہ دیش کو محض 36 فیصد پرٹرخا دیا گیا۔البتہ 2011 میں دہلی سرکار نے وعدہ کیا کہ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے مابین برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اسی پس منظر میں ستمبر 2011 میں بھارتی وزیرِ اعظم ’’منموہن سنگھ‘‘ کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران دونوں ملک بظاہر اس امر پر متفق ہو گئے تھے کہ تیستا دریا کے پانی کے تنازعے کو حل کرنے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں اور اس ضمن میں لگ بھگ تمام تفصیلات بھی طے کر لی گئی تھیں۔اور دونوں حکومتوں کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا کہ ستمبر 2011 میں منموہن سنگھ کے اسی دورہ کے دوران معاہدے پر حتمی دستخط بھی ہو جائیں گے۔مگر عین موقع پر مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینر جی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ان کی حکومت اور مغربی بنگال کی عوام کسی بھی صورت میں اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گی۔ دسمبر 2013 میں بھی انھوں نے 3 مرتبہ یہ بات دہرائی ’’مغربی بنگال کے عوام اس معاہدے کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے‘‘ واضح رہے کہ ممتا بینر جی ترنمول کانگرس نامی پارٹی کی سربراہ ہیں اور گذشتہ ڈھائی برس سے مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔علاوہ ازیں حالیہ لوک سبھا چناؤ میں ان کی پارٹی نے مغربی بنگال کی 42 لوک سبھا سیٹوں میں سے 34 پر کامیابی حاصل کر کے اپنی مقبولیت واضح کر دی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ممتا بینر جی نے یہ رویہ دہلی کی مرکزی حکومت کے ایما پر اپنایا ہوا ہے۔لہذا مستقبل قریب میں بھی بھارت بنگلہ دیش تعلقات میں قابلِ رشک حد تک بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ دہلی سرکار عوامی لیگی قیادت کی ملی بھگت سے بنگلہ دیش کے عوام اور سول سوسائٹی کو سبز باغ دکھانے کی ریاکاری پر مبنی اپنی روایتی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہے گی۔ اور یوں غالباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکمران جس طرح اپنے دیگر ہمسایوں کے ساتھ توسیع پسندانہ عزائم پر مبنی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے اسی روش کے عین مطابق بنگلہ دیشی عوام کو بھی طفل تسلیوں کا اپنا کھیل جاری رکھیں گے۔
اٹھارہ مئی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام اآباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)