Newspaper Article 26/10/2014
بھارتی حکمرانوں کا روزِاول سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت اور رام راجیہ کے قیام کا خواب دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔اپنی اس مذموم روش کے زیرِاثر انہوں نے حیدر آباد دکن،جونا گڑھ اور مناور کو ہڑپ کیا ، گوا اور سکم پر قبضہ کیا اور ان سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر پر اپنا نا جائز تسلط جمایا اور اسے قائم رکھنے کے لئے دہلی سرکار بد ترین قسم کی ریاستی دہشتگردی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک ایک لاکھ کے لگ بھگ معصوم کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا جا چکا ہے۔مگر مقبوضہ کشمیر ریاست کے نہتے مگر جری عوام اپنی لازوال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ،اسی پس منظر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کا دن ’’یومِ سیاہ ‘‘ کے طور پہ مناتی ہے۔اکثر با ضمیر حلقے اس دن کو ’’یومِ جارحیت بھارت‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔کیونکہ 27 اکتوبر1947 کوتمام اخلاقی بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈین آرمی نے ریاست جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا اور بھارت کا یہ غاصبانہ تسلط 67 برس گزر جانے کے بعد بھی ہنوز جاری ہے۔حالانکہ اس نا جا ئز قبضے کے بعد کئی برسوں تک بھارت یہ وعدہ کرتا رہا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی غرض سے حق خودرادیت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔بلکہ اسی ضمن میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو باقاعدہ قراردادوں کے ذریعے اس امر کا اظہار کیا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے تا کہ وہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں یا اپنے مخلص ترین دوست پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چا ہتے ہیں جس کے ساتھ ان کا مذہبی،ثقافتی رشتہ صدیوں سے برقرار ہے۔
ہندوستانی حکمرانوں کی وعدہ شکنی کا یہ عالم ہے کہ ابتدائی برسوں میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک سے زائد مرتبہ واضح طور پر اعتراف بھی کیا اور کھلے لفظوں میں اعلان بھی کہ کشمیریوں کو ہر حال میں رائے شماری کا حق دیا جائے گا ،مگر بھارتی حکمرانوں کی کہہ مکرنیوں کی اس سے بڑی اور بدترین مثال کیا ہو گی کہ وقت گزرنے کے ساتھ پنڈت نہرو نے مقبوضہ ریاست کی بابت ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا اور یہ بے بنیاد دعویٰ ان دنوں بھی مودی سمیت اکثربھارتی وزیر کر رہے ہیں کیونکہ ان کو یہ بات بہت گراں گزری کہ چند ہفتے قبل وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں میں جموں کشمیر کے مسئلے کو منصفانہ بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور عالمی برادری سے کہا کہ وہ کشمیری قوم کو استصواب رائے دینے کے حق کی بابت اپنا کردار ادا کرے ۔اسی لئے بھارت نے ورکنگ باؤنڈری اور LOC پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں 16 سے زائد معصوم شہری زندہ رہنے کے بنیادی حق سے محروم جبکہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
مبصرین نے بھارتی حکومت کی اس بے معنی مگر مذموم روش پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے وقت دہلی کے حکمران یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج بھی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور کوئی بھارتی شہری اس علاقے میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتا بلکہ اگر جموں کشمیر کی کوئی خاتون بھی کسی بھارتی شہری سے شادی کر لے تو وہ ریاست میں اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم ہو جاتی ہے۔اس کے باوجود بھارت اگر اپنی راگنی الاپتا رہے تو اس سے زمینی حقائق بہر طور تبدیل نہیں ہو سکتے۔
کئی غیر ملکی سر براہوں نے بھی مختلف مواقع پر پاکستان کی ان کاوشوں کی تعریف کی ہے جو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کر رہا ہے ،اس ضمن میں بھارت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر معقولیت کی راہ اپنائے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر رضا مند ہو جائے وگرنہ یہ تو طے ہے کہ کسی قوم کو محض دہشت گردی کے ذریعے ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا خصوصاً جب وہ قوم اپنے ایک لاکھ سے زائد فرزند شہید کروا چکی ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ غیروں کی غلامی کو قبول کر لے گی ۔ایسے فضول خواب صرف دہلی کے حکمران ہی دیکھ سکتے ہیں۔
مگر شاید ہندوستانی بالادست طبقات نے انسانی تاریخ سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کیا ۔تبھی تو وہ کشمیر کے حریت پسندوں کودہشت گرد قرار دینے کی سعی لا حاصل میں مصروف ہیں حالانکہ خود بھارت کے کئی دانشوروں نے کہا ہے کہ برطانوی اقتدار سے آزادی کی خاطر کانگریس اور کئی دوسرے ہندوستانی طبقات نے لمبی جدوجہد کی اس دوران سبھاش چندر بوس،بھگت سنگھ،چندر شیکھر آزاد وغیرہ کوبرطانوی حاکموں نے دہشتگرد قرار دیا مگر آج ہر خاص وعام بھارتی ’ ’بھگت سنگھ‘‘ وغیرہ کی سمادھی پر پھول چڑھاتے ہوئے انھیں تحریک آزادی ہند کے عظیم سپاہی قرار دیتے نہیں تھکتے۔’’سبھاش چندر بوس‘‘ جس نے آزادی کی خاطر جاپانی افواج سے مل کر متحدہ ہندوستان میں کئی متشدد کاروائیاں کیں۔انہیں بھارت کے حکمران طبقے ’’نیتا جی‘‘ کا خطاب دیتے ہیں ۔
مگر کشمیری حریت پسندوں کے خلاف ہر قسم کا ظلم روا رکھنا واجب سمجھا جاتا ہے،اب بھارتی حکمرانوں کو یہ کون سمجھائے کہ آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد کہہ دینا تو شاید ممکن ہے مگر اس بابت حتمی فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور وقت کے فیصلے ہی بالعموم درست قرار پاتے ہیں ۔27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے ریاستی دہشتگردی کا جو گھاؤنا کھیل شروع کیا تھا اس کا انجام اب زیادہ دور کی بات نہیں کہ قانونِ فطرت ہے کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور بھارتی سرکار کے ظلم کی رات بھی اب ڈھلنے والی ہے کیونکہ کسی بھی غاضب کے روکنے سے بھلا صبح آزادی کو طلوع ہونے سے کون روک پایا ہے؟یقیناًاس کا جواب نفی میں ہے۔مناسب ہو گا کہ ہندوستانی سرکار اس نوشتہ دیوار کو جتنی جلدی پڑھ لے اتنا ہی علاقائی امن کے لئے اچھی بات ہو گی۔بہر حال یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے 11 ستمبر 2014 کو کشمیر کے مے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیا ہے علاوہ ازیں وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے جنرل اسمبلی میں تنازعہ کشمیر، اور دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں ٹھوس اور موثر لب و لہجہ اپنایا ہے جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہونے کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ 26 اکتوبر کو لندن میں بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری اور تمام انسان دوست حلقے’’ کشمیر ملین مارچ ‘‘ کے نام سے زور دار اور موثر احتجاج بھی کر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنا موثر اور مثبت کردار ادا کرے گی ۔
چھبیس اکتوبر کو نوائے وقت اور پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام اآباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دارنہیں )