Newspaper Article 07/09/2014
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ دنیا بھر میں قومی سلامتی اور دفاعِ وطن کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تمام حکومتیں اور ریاستیں غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اکثر اوقات معمول سے ہٹ کر اقدامات اٹھاتی ہیں مثلاً کسے علم نہیں کہ نائن الیون کے واقع کے بعد امریکہ جیسے انسانی حقوق کے عالمی دعویدار ملک میں بھی داخلی سلامتی کے حوالے سے مخصوص طرز کی قانون سازی کی گئی جو مسلمہ جمہوری اقدار اور انصاف کے تقاضوں پر کسی بھی حوالے سے پوری نہیں اترتی مگر وہاں کی سول سوسائٹی ،میڈیا اور معاشرے کے اکثر طبقات نے اس حکمتِ عملی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی بجائے اس کا خیر مقدم کیا ۔
اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی ریاست میں بھی دو برس قبل کرپشن کے خلاف ’’لوک پال بل‘‘ (عوامی احتساب بل)پارلی منٹ نے پاس کیا تو اس قانون کے دائرہ اختیار سے وہاں کی مسلح افواج اور اس سے متعلقہ اداروں کو مبرّا رکھا گیاَ
مگر اسے وطنِ عزیز کی بد قسمتی قرار دیا جا نا چاہیے کہ گذشتہ کئی برسوں سے یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے کہ کبھی لاپتہ افراد کے نام پر اور کبھی کرپشن کی دہائی دے کر پاک آرمی اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے اور حالیہ دنوں میں بھی یہ ناقابلِ رشک طرزِ عمل نئے سرے سے مختلف شکلوں میں میڈیا کے ایک مخصوص حلقے میں فروغ پا رہا ہے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ انہی دنوں ملک بھر میں یومِ دفاعِ پاکستان قومی جوش و جذبے سے منایا گیا۔کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ۴۹ برس قبل بھارت نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو پامال کرنے کی سعی کی تھی جس کے جواب میں افواجِ پاکستان اور عوام نے قربانیوں کی ایسی لازوال داستان رقم کی جو تاریخ کا سنہری باب ہے ۔اسی حوالے سے پوری قوم ۶ ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان مناتی ہے اور ان شہیدوں اور غازیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہوں نے قومی سلامتی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنا حال قربان کر دیا تھا ۔اس کے علاوہ بھی جب وطنِ عزیز کو کسی اندرونی ،بیرونی یا قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو افواجِ پاکستان ہراول دستے کے طور پر اپنا روشن کردار ادا کرتی ہے۔بھلے ہی وہ ۲۰۰۵ کا قیامت خیز زلزلہ ہو،تھر کی قحط سالی یا پھر سیلاب کی تباہکاریاں۔ہر مشکل کی گھڑی میں قوم اپنے ان فرزندوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی ہیں اور انھیں نے بھی قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا۔
اس کے علاوہ عالمی امن کو یقینی بنانے کی خاطر بھی پاک آرمی نے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر دنیا کے مختلف خطوں میں جو مثبت کردار ادا کیا ہے اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔ماضی قریب میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے دورہ پاکستان کے دوران اس حوالے سے افواجِ پاکستان اور یہاں کے عوام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا کا ایک بڑا حلقہ وقتاً فوقتاً پاک آرمی اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس ضمن میں خود پاکستانی ذرائع ابلاغ کے اور اربابِ اقتدار میں سے کچھ عناصر شعوری یا نا دانستہ طور پہ حقائق کو اکثر اوقات توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں مثال کے طور پہ حالیہ دنوں میں ملک میں جاری سیاسی انتشار کے حوالے سے وطنِ عزیز کے میڈیا کا ایک حلقہ پاک فوج کے کردار کے ضمن میں عجیب و غریب افسانے گھڑ رہا ہے اورافواجِ پاکستان اور (آئی ایس آئی)کے انتہائی مثبت کردار کو منفی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یوں بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرح سے مٹھی بھر پاک دشمن عناصر کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے ۔اس ضمن میں بعض اخبارات نے تواپنے ادارتی صفحات گویا اسی مقصد کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں یوں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے ڈس انفارمیشن کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے ۔خاص طور پر بعض ٹی وی چینل جعلی ریٹنگ کے ذریعے حقائق کو بری طرح مسخ کر رہے ہیں۔دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ نوائے وقت اور پرنٹ اور الیکٹڑانک میڈیا کا ایک بہت بڑا حلقہ وطنِ عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی متوازن اور قابلِ رشک کردار ادا کر رہا ہے۔
اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان ،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ تنقید بنانا دانشوری ،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین حدِ فاصل کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت نظریہ پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے (پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) کی سوچ کے تحت اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے صرف کریں۔
ستمبر 6کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)