Newspaper Article 04/10/2017
واضح رہے کہ کانگرس کے نائب صدر راہل گاندھی دو ہفتوں سے امریکی کے دورے پر ہیں ۔ راہل گاندھی نے وہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس ( کیپ ) کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں نوجوانوں کے لئے نوکریوں کی انتہائی تشویش ناک حد تک کمی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ کانگرس کی گذشتہ سرکار کی کارکردگی بھی قابلِ رشک نہیں تھی مگر مودی سرکار نے تو صورتحال کو انتہائی تشویش ناک حد تک خراب کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ بھارت میں عدم برداشت اس وقت انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور بھارت آر ایس ایس ‘‘ کی قیادت میں انتہائی سرعت سے تباہی کی طرف جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ اس میٹنگ میں ’’ کیپ ‘‘ کی سربراہ’’ نیرا ٹنڈن ‘‘،بھارت میں امریکہ کے چند ماہ پہلے تک سفیر ’’رچرڈ ورما‘‘ اور ہیلری کلنٹن کے ٹاپ کمپین ایڈوائزر ’’جان پوڈیسٹا‘‘ بھی شامل تھے۔
دوسری طرف مہاراشٹر میں بی جے پی کی اتحادی جماعت’’ شیو سینا‘‘ نے کہا ہے کہ بھارت میں اس قدر تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے لگتا ہے کہ شاید مودی سرکار بلٹ ٹرین پر آنے والے خرچ کو عام آدمی کی جیب سے پورا کرنا چاہتی ہے ۔ شیو سینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ کے اداریے میں لکھا گیا کہ ’’ کوئی اہلیت نہ رکھنے والے لوگ اس وقت بھارت کو چلا رہے ہیں ۔ اور مودی جو کہہ رہے کہ بھارت کے حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں ، وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور بھارت در حقیقت تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
علاوہ ازیں یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کے خلاف بھارتی حکمرانوں نے مکروہ سازشوں کا دیرینہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی پس منظر میں حریت قائدین پر آئے دن ایسے بے سروپا الزامات دھرے جا رہے ہیں جن کا حقائق سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اسی تناظر میں انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کو ٹرر فنڈنگ کے بے بنیاد الزامات لگا کر مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔ خصوصاً پچھلے تین ماہ سے یہ سلسلہ اپنے عروج پر ہے ۔ حریت لیڈروں کو بار بار گرفتار کیا جاتا ہے۔ سیدعلی گیلانی کے دو بیٹوں نسیم گیلانی اور نعیم گیلانی کو بھی پوچھ تاچھ کے لئے دو بار دہلی طلب کیا گیا۔وادی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔ کئی تاجروں کے کاروبار سے متعلق ریکارڈ ضبط کیا گیا۔ کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ساری کارروائی کے باوجود NIA (بھارت کا قومی تحقیقی ادارہ) کوئی بھی ٹھوس ثبوت یا شہادت سامنے لانے میں ناکام ثابت ہوا ہے کیونکہ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے ۔
لیکن اس بیچ حیران کن بات یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر بھارت کے تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز مقبوضہ کشمیر میں این آئی اے کے چھاپوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں، جیسے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی ساری تاریں ’’ٹرر فنڈنگ‘‘ کیس سے جاملتی ہیں۔ ان ٹی وی چینلوں میں کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ وہاں واقعی ایک تحریک چل رہی ہے، جسے مکمل عوامی سپورٹ حاصل ہے۔ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کبھی بھی وہاں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ نہیں کرتا اور نہ ہی مقبوضہ ریاست کے بارے میں دہلی کے مظالم کی کبھی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ تاثر پھیلانے کی ناکام سعی جاری ہے کہ کشمیر میں پیسہ دیکر پتھر پھنکوائے جاتے ہیں، گولیاں چلائی جاتی ہیں اور احتجاج کروایا جاتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ ایک سال کے دوران خود ہندوستان کی کئی اہم شخصیتوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے وہاں کے زمینی حالات کا جائزہ لیا اور پھر دو ٹوک لفظوں میں تسلیم کیا کہ کشمیری عوام حکومت ہند سے نالاں ہے اور یہاں واقعی انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں جاری ہیں ۔
واضح رہے کہ جولائی 2016میں وانی کی شہادت کے بعد جب مقبوضہ وادی کے حالات انتہائی خراب ہوئے اور وہاں جدوجہدِ آزادی میں مزید سرعت آ گئی تھی تو اُس وقت تین سرکردہ بھارتی صحافی سنتوش بھارتی، اشوک وانکھڑے اور ابھے کمار دوبے وہاں کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے تھے ۔ سنتوش بھارتی نے تو مودی کے نام ایک کھلا خط لکھ کر ان تمام مظالم کی نشاندہی کی تھی جن کا ارتکاب بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں کرتی ہے۔
اس ضمن میں سابق بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا سے لے کر فاروق عبداللہ جیسی بھارت نواز شخصیات نے بھی مقبوضہ ریاست میں جاری دہلی کی ریاستی دہشتگردی کو تسلیم کیا ۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری اپنے ہونے کا ثبوت دے گی ۔ کہ
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
دوسری طرف مہاراشٹر میں بی جے پی کی اتحادی جماعت’’ شیو سینا‘‘ نے کہا ہے کہ بھارت میں اس قدر تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے لگتا ہے کہ شاید مودی سرکار بلٹ ٹرین پر آنے والے خرچ کو عام آدمی کی جیب سے پورا کرنا چاہتی ہے ۔ شیو سینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ کے اداریے میں لکھا گیا کہ ’’ کوئی اہلیت نہ رکھنے والے لوگ اس وقت بھارت کو چلا رہے ہیں ۔ اور مودی جو کہہ رہے کہ بھارت کے حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں ، وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور بھارت در حقیقت تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
علاوہ ازیں یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کے خلاف بھارتی حکمرانوں نے مکروہ سازشوں کا دیرینہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی پس منظر میں حریت قائدین پر آئے دن ایسے بے سروپا الزامات دھرے جا رہے ہیں جن کا حقائق سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اسی تناظر میں انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کو ٹرر فنڈنگ کے بے بنیاد الزامات لگا کر مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔ خصوصاً پچھلے تین ماہ سے یہ سلسلہ اپنے عروج پر ہے ۔ حریت لیڈروں کو بار بار گرفتار کیا جاتا ہے۔ سیدعلی گیلانی کے دو بیٹوں نسیم گیلانی اور نعیم گیلانی کو بھی پوچھ تاچھ کے لئے دو بار دہلی طلب کیا گیا۔وادی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔ کئی تاجروں کے کاروبار سے متعلق ریکارڈ ضبط کیا گیا۔ کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ساری کارروائی کے باوجود NIA (بھارت کا قومی تحقیقی ادارہ) کوئی بھی ٹھوس ثبوت یا شہادت سامنے لانے میں ناکام ثابت ہوا ہے کیونکہ جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے ۔
لیکن اس بیچ حیران کن بات یہ دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ایک آدھ کو چھوڑ کر بھارت کے تقریباً تمام ٹیلی ویژن چینلز مقبوضہ کشمیر میں این آئی اے کے چھاپوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے نظر آتے ہیں، جیسے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی ساری تاریں ’’ٹرر فنڈنگ‘‘ کیس سے جاملتی ہیں۔ ان ٹی وی چینلوں میں کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ وہاں واقعی ایک تحریک چل رہی ہے، جسے مکمل عوامی سپورٹ حاصل ہے۔ بھارتی الیکٹرانک میڈیا کبھی بھی وہاں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ نہیں کرتا اور نہ ہی مقبوضہ ریاست کے بارے میں دہلی کے مظالم کی کبھی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ تاثر پھیلانے کی ناکام سعی جاری ہے کہ کشمیر میں پیسہ دیکر پتھر پھنکوائے جاتے ہیں، گولیاں چلائی جاتی ہیں اور احتجاج کروایا جاتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ ایک سال کے دوران خود ہندوستان کی کئی اہم شخصیتوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرکے وہاں کے زمینی حالات کا جائزہ لیا اور پھر دو ٹوک لفظوں میں تسلیم کیا کہ کشمیری عوام حکومت ہند سے نالاں ہے اور یہاں واقعی انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں جاری ہیں ۔
واضح رہے کہ جولائی 2016میں وانی کی شہادت کے بعد جب مقبوضہ وادی کے حالات انتہائی خراب ہوئے اور وہاں جدوجہدِ آزادی میں مزید سرعت آ گئی تھی تو اُس وقت تین سرکردہ بھارتی صحافی سنتوش بھارتی، اشوک وانکھڑے اور ابھے کمار دوبے وہاں کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے تھے ۔ سنتوش بھارتی نے تو مودی کے نام ایک کھلا خط لکھ کر ان تمام مظالم کی نشاندہی کی تھی جن کا ارتکاب بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں کرتی ہے۔
اس ضمن میں سابق بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا سے لے کر فاروق عبداللہ جیسی بھارت نواز شخصیات نے بھی مقبوضہ ریاست میں جاری دہلی کی ریاستی دہشتگردی کو تسلیم کیا ۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری اپنے ہونے کا ثبوت دے گی ۔ کہ
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
اک بستی لوگ جسے کشمیر کہتے ہیں
بائیس ستمبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )