Newspaper Article 28/11/2015
تیئس نومبر کو نامور بھارتی فلمسٹار ’’ عامر خان ‘‘ نے کہا کہ ہندوستان میں عدم تحفظ اور خوف کی فضا اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان کی اہلیہ ’’ کرن راؤ ‘‘ ( جو ہندو ہیں ) وہ انھیں کئی بار کہہ چکی ہیں کہ اس ملک میں بچے محفوظ نہیں اس لئے کسی دوسرے ملک منتقل ہو جانا چاہیے ‘‘۔ عامر خان نے ان خیالات کا اظہار انڈین ایکسپریس کے بانی ’’ رام ناتھ گونیکا ایوارڈز ‘‘ کی تقریب کے دوران کیا ۔ تب سے پورے بھارت میں ان کے خلاف ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے ۔
دوسری جانب بھارتی صوبے آسام کے گورنر ’’ پی بی اچاریہ ‘‘ نے کہا ہے کہ ’’ آسام صرف ہندوؤں کے لئے ہے ‘‘ اور اس بابت کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔ موصوف نے ان خیالات کا اظہار اکیس نومبر کو آسام کے دارالحکومت ’’ گوہاٹی ‘‘ میں ایک تقریب کے دوران کیا ۔ مبصرین کے مطابق آسام کے چوراسی سالہ گورنر ’’ پدم نابھن اچاریہ ‘‘ کے اس شر انگیز بیان کو محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بہار میں شرمناک شکست کے بعد ’’ بی جے پی ‘‘ اور دوسرے ہندو گروہوں کے جنون کا اگلا نشانہ صوبہ ’’ آسام ‘‘ ہے جہاں پر عام صوبائی انتخابات چند ماہ بعد یعنی مارچ اپریل 2016 میں ہونے ہیں اور 2011 کی بھارتی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں کل آبادی میں سے مسلمانوں کا تناسب 34.22 فیصد ہے ۔ آسام کے بتیس اضلاع میں سے نو ضلعوں میں تو مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ اس وجہ سے ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور مودی سرکار کی پوری کوشش یہ ہے کہ آسام میں ان انتخابات سے پہلے مسلم دشمنی کے جذبات کو انتہائی فروغ دیا جائے تا کہ ہندو اور مسلم گروہ بندی کھل کر سامنے آ جائے اور مذکورہ چناؤ میں ہندوؤں کی بھاری اکثریت ’’ بی جے پی ‘‘ کی پشت پر کھڑی ہو کر اسے ووٹ دے ۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس یعنی اپریل مئی 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں آسام کی چودہ میں سے سات سیٹیں ’’ بی جے پی ‘‘ جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی جو اس کے لئے بہت بڑی پیش رفت تھی کیونکہ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ آسام میں اسے اتنی زیادہ سیٹیں حاصل ہوئیں ۔ اسی مشن کی تکمیل کی خاطر ’’ بی جے پی ‘‘ کے صدر ’’ امت شاہ ‘‘ ستائیس نومبر کو ڈبرو گڑھ ( آسام ) میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کر رہے ہیں ۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم کے دوران مودی نے ایک سے زائد مرتبہ آسام میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا تھا اور خصوصاً بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر رکھیں کیونکہ ’’ بی جے پی ‘‘ کی حکومت آنے کے بعد آسام میں رہ رہے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو واپس سرحد پار بھجوا دیا جائے گا ‘‘ ۔
یاد رہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کے ہمنواؤں کا عرصہ دراز سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ 1971 کے بعد سے دو کروڑ سے زیادہ بنگلہ دیشی غیر قانونی بطور پر بھارت میں بس گئے ہیں اور ان میں سے اکثریت آسام اور مغربی بنگال میں آباد ہو چکی ہے لہذا انھیں واپس بھجوانا ’’ بی جے پی ‘‘ کے انتخابی منشور کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے ۔ ڈیڑھ ماہ پہلے چھ ستمبر کو دہلی سرکار نے آسام میں رہنے والے دو لاکھ سے زائد بنگلہ دیش کے ہندو تارکینِ وطن کو تو بھارتی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا اور اعلانیہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے آئے مسلم تارکین وطن کو کسی صورت بھارتی شہریت نہیں دی جائے گی ۔ اس تمام صوررتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ گاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ صوبہ بہار کے انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد مودی سرکار کے سامنے ممکنہ طور پر دو راستے تھے پہلا یہ کہ وہ مسلم دشمنی پر مبنی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے اور کچھ حلقوں کی رائے تھی کہ یقینی طور پر ایسا ہی ہو گا کیونکہ بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی عدم برداشت کے ماحول کی وجہ سے ایک جانب بھارت کے اندر ’’ بی جے پی ‘‘ کے خلاف ماحول پیدا ہو چکا تھا اور مسلمان اور دیگر اقلیتیں متحد ہو کر ’’ بی جے پی ‘‘ کے سامنے کھڑے ہو گئے جس کے نتیجے میں بہار میں اسے فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
دوسری جانب عالمی سطح پر بھی مودی سرکار پر ایک بڑا دباؤ بنتا نظر آ رہا تھا جس کا مظاہرہ بارہ نومبر کو مودی کی لندن یاترا کے دوران ’’ بی بی سی ‘‘ اور ’’ دی گارڈین ‘‘ جیسے عالمی میڈیا کی اعلانیہ تنقید کی صورت میں سامنے آیا اور مودی کی لندن آمد کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جن میں سکھوں ، کشمیریروں ، نیپالیوں اور خود برطانیہ کے انسان دوست حلقوں نے بھی بڑے پیمانے پر شرکت کی ۔ مبصرین کے مطابق ’’ بی جے پی ‘‘ کے اندر دوسرا مکتبہ فکر بہار چناؤ کے بعد اس رائے کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اگر مسلم دشمنی کے اپنے رخ میں قدرے نرمی بھی لاتی ہے تو آنے والے آسام ، مغربی بنگال ، کیرالہ ، پانڈی چری اور نامل ناڈو کے عام صوبائی انتخابات میں مسلمانوں کی بھارتی اکثریت تو کسی صورت بھی اسے ووٹ نہیں دے گی ۔ اس لئے اپنے ہندو ووٹ بینک کو کیوں امتحان میں ڈالا جائے بلکہ پوری کوشش کی جانی چاہیے کہ محض ہندو ووٹ بینک کی اکثریت کے ذریعے یہ انتخابات جیتے جائیں ۔
اسی حکمت عملی کے تحت غالباً بہار کے بعد اگلا نشانہ آسام کو بنانے کے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جہاں پر مسلم آبادی تقریباً پینتیس فیصد ہے ۔ اور مودی سرکار کی آمد کے بعد اگست 2014 میں کئی اضلاع میں مسلم کش فسادات بھی ہو چکے ہیں ، اس لئے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ، جیت حاصل کرنے کا منصوبے بنایا گیا ہے ، لہذا اس امر کے حقیقی خدشات موجود ہیں کہ آنے والے چند ماہ میں آسام کے اندر مسلم کش فسادات کے نئے سلسلے کے آغاز کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہاں جیت حاصل کر کے دہلی اور بہار میں ہونے والی شکست کے صدمات کو کم کیا جا سکے ۔ علاوہ ازیں اس تاثر کی نفی ہو کہ بھارتی سیاست میں مودی لہر کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔
اس ضمن میں اس امر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ آسام کے انتخابات کے سلسلے میں چلائی جانے والی انتخابی مہم کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں بنگلہ دیشی عوام میں بھارت مخالف جذبات کو ایک نئی جہت ملے جس وجہ سے بھارت بنگلہ دیش تعلقات بھی کسی حد تک متاثر ہو سکتے ہیں ۔
دوسری جانب بھارتی صوبے آسام کے گورنر ’’ پی بی اچاریہ ‘‘ نے کہا ہے کہ ’’ آسام صرف ہندوؤں کے لئے ہے ‘‘ اور اس بابت کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔ موصوف نے ان خیالات کا اظہار اکیس نومبر کو آسام کے دارالحکومت ’’ گوہاٹی ‘‘ میں ایک تقریب کے دوران کیا ۔ مبصرین کے مطابق آسام کے چوراسی سالہ گورنر ’’ پدم نابھن اچاریہ ‘‘ کے اس شر انگیز بیان کو محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بہار میں شرمناک شکست کے بعد ’’ بی جے پی ‘‘ اور دوسرے ہندو گروہوں کے جنون کا اگلا نشانہ صوبہ ’’ آسام ‘‘ ہے جہاں پر عام صوبائی انتخابات چند ماہ بعد یعنی مارچ اپریل 2016 میں ہونے ہیں اور 2011 کی بھارتی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں کل آبادی میں سے مسلمانوں کا تناسب 34.22 فیصد ہے ۔ آسام کے بتیس اضلاع میں سے نو ضلعوں میں تو مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ اس وجہ سے ’’ آر ایس ایس ‘‘ اور مودی سرکار کی پوری کوشش یہ ہے کہ آسام میں ان انتخابات سے پہلے مسلم دشمنی کے جذبات کو انتہائی فروغ دیا جائے تا کہ ہندو اور مسلم گروہ بندی کھل کر سامنے آ جائے اور مذکورہ چناؤ میں ہندوؤں کی بھاری اکثریت ’’ بی جے پی ‘‘ کی پشت پر کھڑی ہو کر اسے ووٹ دے ۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس یعنی اپریل مئی 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں آسام کی چودہ میں سے سات سیٹیں ’’ بی جے پی ‘‘ جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی جو اس کے لئے بہت بڑی پیش رفت تھی کیونکہ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ آسام میں اسے اتنی زیادہ سیٹیں حاصل ہوئیں ۔ اسی مشن کی تکمیل کی خاطر ’’ بی جے پی ‘‘ کے صدر ’’ امت شاہ ‘‘ ستائیس نومبر کو ڈبرو گڑھ ( آسام ) میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کر رہے ہیں ۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم کے دوران مودی نے ایک سے زائد مرتبہ آسام میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا تھا اور خصوصاً بنگلہ دیشی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر رکھیں کیونکہ ’’ بی جے پی ‘‘ کی حکومت آنے کے بعد آسام میں رہ رہے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو واپس سرحد پار بھجوا دیا جائے گا ‘‘ ۔
یاد رہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کے ہمنواؤں کا عرصہ دراز سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ 1971 کے بعد سے دو کروڑ سے زیادہ بنگلہ دیشی غیر قانونی بطور پر بھارت میں بس گئے ہیں اور ان میں سے اکثریت آسام اور مغربی بنگال میں آباد ہو چکی ہے لہذا انھیں واپس بھجوانا ’’ بی جے پی ‘‘ کے انتخابی منشور کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے ۔ ڈیڑھ ماہ پہلے چھ ستمبر کو دہلی سرکار نے آسام میں رہنے والے دو لاکھ سے زائد بنگلہ دیش کے ہندو تارکینِ وطن کو تو بھارتی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا اور اعلانیہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے آئے مسلم تارکین وطن کو کسی صورت بھارتی شہریت نہیں دی جائے گی ۔ اس تمام صوررتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ گاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ صوبہ بہار کے انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد مودی سرکار کے سامنے ممکنہ طور پر دو راستے تھے پہلا یہ کہ وہ مسلم دشمنی پر مبنی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے اور کچھ حلقوں کی رائے تھی کہ یقینی طور پر ایسا ہی ہو گا کیونکہ بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی عدم برداشت کے ماحول کی وجہ سے ایک جانب بھارت کے اندر ’’ بی جے پی ‘‘ کے خلاف ماحول پیدا ہو چکا تھا اور مسلمان اور دیگر اقلیتیں متحد ہو کر ’’ بی جے پی ‘‘ کے سامنے کھڑے ہو گئے جس کے نتیجے میں بہار میں اسے فیصلہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
دوسری جانب عالمی سطح پر بھی مودی سرکار پر ایک بڑا دباؤ بنتا نظر آ رہا تھا جس کا مظاہرہ بارہ نومبر کو مودی کی لندن یاترا کے دوران ’’ بی بی سی ‘‘ اور ’’ دی گارڈین ‘‘ جیسے عالمی میڈیا کی اعلانیہ تنقید کی صورت میں سامنے آیا اور مودی کی لندن آمد کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے جن میں سکھوں ، کشمیریروں ، نیپالیوں اور خود برطانیہ کے انسان دوست حلقوں نے بھی بڑے پیمانے پر شرکت کی ۔ مبصرین کے مطابق ’’ بی جے پی ‘‘ کے اندر دوسرا مکتبہ فکر بہار چناؤ کے بعد اس رائے کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اگر مسلم دشمنی کے اپنے رخ میں قدرے نرمی بھی لاتی ہے تو آنے والے آسام ، مغربی بنگال ، کیرالہ ، پانڈی چری اور نامل ناڈو کے عام صوبائی انتخابات میں مسلمانوں کی بھارتی اکثریت تو کسی صورت بھی اسے ووٹ نہیں دے گی ۔ اس لئے اپنے ہندو ووٹ بینک کو کیوں امتحان میں ڈالا جائے بلکہ پوری کوشش کی جانی چاہیے کہ محض ہندو ووٹ بینک کی اکثریت کے ذریعے یہ انتخابات جیتے جائیں ۔
اسی حکمت عملی کے تحت غالباً بہار کے بعد اگلا نشانہ آسام کو بنانے کے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جہاں پر مسلم آبادی تقریباً پینتیس فیصد ہے ۔ اور مودی سرکار کی آمد کے بعد اگست 2014 میں کئی اضلاع میں مسلم کش فسادات بھی ہو چکے ہیں ، اس لئے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ، جیت حاصل کرنے کا منصوبے بنایا گیا ہے ، لہذا اس امر کے حقیقی خدشات موجود ہیں کہ آنے والے چند ماہ میں آسام کے اندر مسلم کش فسادات کے نئے سلسلے کے آغاز کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہاں جیت حاصل کر کے دہلی اور بہار میں ہونے والی شکست کے صدمات کو کم کیا جا سکے ۔ علاوہ ازیں اس تاثر کی نفی ہو کہ بھارتی سیاست میں مودی لہر کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔
اس ضمن میں اس امر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ آسام کے انتخابات کے سلسلے میں چلائی جانے والی انتخابی مہم کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں بنگلہ دیشی عوام میں بھارت مخالف جذبات کو ایک نئی جہت ملے جس وجہ سے بھارت بنگلہ دیش تعلقات بھی کسی حد تک متاثر ہو سکتے ہیں ۔
چھبیس نومبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )