Newspaper Article 28/06/2018
یہ امر اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے رواں ہفتے پہلی بار مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی اور یو این ہیومن رائٹس کونسل کی جاری کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں دہلی کی بدترین ریاستی دہشتگردی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت آتی جا رہی ہے اور مقبوضہ ریاست کے عوام میں دہلی سرکار کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ 49 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جولائی 2016 سے اپریل 2018 میں کشمیریوں کی طرف سے قابض بھارتی فوج کے خلاف بے مثال مزاحمت دیکھنے میں آئی اور دہلی سرکار کے غیر انسانی مظالم کے باوجود محکوم کشمیری اپنی تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مذکورہ رپورٹ میں دہلی سرکار کے جن چند سفاک مظالم کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کنان پوشپورہ سانحہ (اس سانحہ میں کنان اور پوشپورہ کے گاؤں میں قابض بھارتی فوجیوں نے قیامت ڈھا دی تھی اور 14 سے 80 سال کی تمام خواتین کی آبرو ریزی کر کے انسانی تاریخ کی سیاہی میں مزید اضافہ کیا تھا) ، نہتے کشمیریوں کا بھارتی فوج کی طرف سے اغوا ، اجتماعی قبریں، پیلٹ گنوں کا بے تحاشا استعمال اور وادی میں نافذ دہلی سرکار کا کالے قانون ’’اے ایف ایس پی اے ‘‘ (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ) شامل ہیں۔
اس کے بعد ’’یو این ایچ آر سی‘‘ کے چیف ’’زید راعد الحسین‘‘ کی جانب سے ایل او سی کے دونوں اطراف اقوام متحدہ کو رسائی دیئے جانے کا مطالبہ کیا تا کہ زمینی صورتحال کا بہتر ڈھنگ سے جائزہ لیا۔ انھوں نے کہا کہ 1990 کے بعد سے بھارتی فوجیوں کو تمام قسم کے جرائم کی کھلی چھوٹ ہے اور انھیں کسی قسم کی کوئی جوبدہی یا سزا سے مبرا قرار دیا جا چکا ہے، اور یہ امر اپنے آپ میں تکلیف دہ ہے۔ اس موقع پر انھوں نے کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کا انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو مقبوضہ کشمیر میں موجود بے نام اجتماعی قبروں سمیت انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کا جائزہ لے، اور بھارتی فوجیوں کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے والے قانون کے خاتمے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاک دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ بھارت اگر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کمیشن کو رسائی دینے پر رضا مند ہے تو پاکستان بھی آزاد کشمیر میں عالمی برادری کو تمام مطلوبہ رسائی دینے کو تیار ہے۔ اگر بھارت حقیقی ترقی کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی چانکیائی ذہنیت کو ترک کرنا ہو گا۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تو عرصہ دراز سے اس امر کا مطالبہ کرتا چلا آیا ہے مگر دہلی سرکار کو اپنی روش کا بخوبی علم ہے، اور وہ جانتی ہے کہ اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے سے بھارتی حکمرانوں کے جمہوریت اور سیکولرازم کے دعووں کا پردہ چاک ہو جائے گا لہذا وہ اس ضمن میں رسائی ہر گز نہیں دینا چاہتا اور اپنی ظالمانہ روش پر نظرثانی کرنے کے بجائے اس نے پاکستان پر الزام تراشی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔
اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب راجیو کے چندر نے اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی دینے کے حوالے سے بڑی لایعنی گفتگو کی اور رسائی دینے سے عملاً انکار کرتے ہوئے اس کے لئے بے سروپا جواز گھڑے۔ اس صورتحال کا سرسری سا بھی جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دہلی کی ریاستی دہشتگردی کو تسلیم کیا جانا ، پاکستان کی سیاسی محاذ پر ایک بہت بڑی پیش رفت ہے مگر ہم اپنی داخلی سیاست کی بھول بھلیوں میں شاید اس قدر الجھے ہیں کہ اتنی قابلِ ذکر کامیابی کا وطن عزیز کے کسی حلقے میں اس طرح سے تذکرہ ہوا اور نہ ہی اسے اس طرح سے اجاگر کیا گیا جس کا یہ متقاضی تھا۔ یہ صورتحال اس امرکی غماز ہے کہ ہمیں اپنی اس روش کو کسی طور قابلِ رشک قرار نہیں دینا چاہیے اور سعی کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں صورتحال کی اصلاح کی جانب بھرپور اور موثر ڈھنگ سے توجہ دی جائے تا کہ دہلی کی سازشوں اور جمہوریت پسندی و سیکولرازم کے نام نہاد دعووں کی اصل شکل دنیا کے سامنے لائی جا سکے۔
دوسری طرف مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی کی حکومت توڑ کر اور آٹھویں بار گورنر راج نافذ کر کے جس قابلِ مذمت روش کا مظاہرہ کیا ہے اس کا جواز تلاش کر پانا بھی کسی مہذب جمہوری معاشرے میں قرین قیاس تک نہیں البتہ اقوام متحدہ کی جانب سے تازہ رپورٹ شاید اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کا کسی حد تک ادراک ہو چلا اور بالخصوص اقوام متحدہ کو احساس ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کا حل خود اقوام متحدہ کے وجود کے لئے ضروری ہے۔ یوں کہا جا تاکہ دہلی کے حکمرانوں کے مظالم کی ’’دیوارِ برہمن ‘‘ گرنے کو ہے
تیئس جون 2018 کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)