Newspaper Article 22/01/2014
دہشتگردی کی حالیہ لہر نے بجا طور پر پوری قوم کے ہر خاص و عام کے ذہنوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے تبھی تو 20 جنوری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ اس وقت ملک غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے اور ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر غیر معمولی اقدامات اٹھا کر اس صورتحال کا سامنا کیا جائے ۔ وزیرِ اعظم نے پنڈی دھماکے کے فوراً بعد آرمی چیف سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران بھی انھیں یقین دلایا کہ اس سنگین صورتحال میں پوری قوم مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے شانہ بشانہ ملک و قوم کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف صف آراء ہے اور انشاء اللہ آنے والے دنوں میں قوم حالیہ بحران پر قابو پا لے گی ۔
مبصرین نے کہا ہے کہ یوں تو گذشتہ ایک عشرے سے زائد پاکستان حالتِ جنگ جیسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک ،پچھلی حکومتوں کی اختیار کردہ خارجی اور دفاعی پالیسیاں بھی ہیں بلکہ ماضی قریب میں امریکہ کی سابق وزیرِ خارجہ ’’ہیلری کلنٹن‘‘ برملا اس امر کا عتراف کر چکی ہیں کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ اس خطے میں امریکہ کی وہ حکمتِ عملی ہے جو اس نے 1978 کے اواخر سے افغانستان میں اختیار کی ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے قیام اور بقا کا ازلی مخالف ہندوستان بھی گذشتہ برسوں میں پاکستان کے مسائل میں اضافے کا بنیادی سبب ہے اور وہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے وطنِ عزیز کو زیادہ سے زیادہ مشکلات میں دھکیلنے کی شعوری کوشش کر رہا ہے البتہ یہ امر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ان غیر ملکی آقاؤں کی کٹھ پتلیوں کا کردار بہر کیف پاکستان سے تعلق رکھنے والے گمراہ عناصر ہی کر رہے ہیں تبھی تو ایک جانب فوج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے خلاف خوفناک حملوں کا سلسلہ جاری ہے اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے محافظ اداروں خصوصاً ISI کی کردار کشی کے لئے عالمی اور قومی سطح پر ایک منظم مہم جاری ہے ۔
مسجدوں ،مزاروں اور اقلیتی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا معمول کی بات بن چکی ہے۔سفاک دہشتگرد جنازوں ،قبرستانوں،ہسپتالوں ،سکولوں خاص طور پر خواتین کے تعلیمی اداروں پر حملے کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسلام تو دور کی بات ان کا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں ،یہاں تک کہ پولیو کی جان لیوا مرض کے علاج کی خاطر مہم چلانے والے مرد اور خواتین اس سفاک ذہنیت کا نشانہ بن رہے ہیں جس کی تازہ مثال 21جنوری کو کراچی میں تین پولیو ورکرز کی شہادت ہے۔واضح رہے کہ ان میں سے دو خواتین تھیں ۔دہشتگردی کی حالیہ لہر خاصی شدت اختیار کر چکی ہے۔
اس کا ندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 19 جنوری کو بنوں میں 30 افراد،20 جنوری کو راولپنڈی دھماکے میں 15 سے زائد اور 21 جنوری کو کوئٹہ میں زائرین کی بس میں22 بے گناہ پاکستانی لقمہ اجل بن گئے اور یہ مکروہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب جمہوری نمائندے آگے بڑھ کر اپنا کردار زیادہ فعال مگر مثبت ڈھنگ سے ادا کریں کیونکہ ان کے حلقوں کے لاکھوں عوام نے انھیں قومی خدمت کے لئے ہی منتخب کیا ہے لہذا وہ قومی،صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اندر ایسی قانون سازی کریں جس سے [دہشتگردی کی لعنت پر قابو پایا جا سکے علاوہ ازیں اسمبلیوں کے ایوانوں کے باہراور میڈیا پر یہ کردار نبھائیں جس سے عوام کا مورال بلند ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لگے کہ پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے یوں دہشتگردوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے ۔
چوہدری اسلم ، اعتزاز حسن اور دوسرے شہیدوں کو پورے ملک میں ہر چھوٹے بڑے پلیٹ فارم سے خراجِ عقیدت اس موثر ڈھنگ سے ادا کیا جائے جس سے قوم کی خاطر جان دینے والوں کے حوصلے بلند اور ملک و قوم کے دشمنوں کے حوصلے پست ہوں ۔اس ضمن میں قومی میڈیا ، حکومتی و اپوزیشن رہنما اور پالیسی ساز ہراول دستے کا کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم حالیہ بحرانی کیفیت پر قابو نہ پا سکے۔
بقول اقبال!
کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفان سے کیوں
ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
وائے ناکامی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
مئے بھی تو مینا بھی تو محفل بھی تو ساغر بھی تو .
23 جنوری کو روزنامہ صدائے چنار میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)