Newspaper Article 29/05/2015
کسی بھی نئی سرکار کے کام کاج کا جائزہ لینے کے لئے 365 دن کا عرصہ کافی کم ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹرز عام طور پر ابتدائی مہینوں میں ہی کیے گئے کام اور اقدامات کے پیشِ نظر اس حکومت کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے موصوف کے پہلے سال کی کارکردگی پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم اس بابت کوئی فیصلہ سنا رہے ہیں کہ وہ ناکام ہوئے یا کامیاب ، البتہ جائزہ لینے میں غالباً کوئی حرج نہیں ۔
بظاہر پرائم منسٹر آفس کا کنٹرول بہت بڑھ گیا ہے ۔ اگر اسے مثبت ڈھنگ سے دیکھیں تو اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کی نظر ہر شے پر ہے اور وہ سبھی شعبوں پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ منفی انداز سے سوچیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ ایک برس میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری سے پی ایم بچ نہیں سکتے ۔
بہرحال بظاہر لگتا ہے کہ پچھلے بارہ مہینوں میں نئی حکومت کے بارے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا جوش بڑی حد تک ٹھنڈا پڑ چکا ہے اگرچہ انہوں ابھی تک امید کا دامن ابھی تک پوری طرح نہیں چھوڑا ۔
یہ بھی ایک زمینی حقیقت کہ بھارت میں کاروبار کرنے کی سہولت سے جڑے ورلڈ بینک کے انڈیکس میں انڈیا بتدریج نیچے پھسل رہا ہے ۔ ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کار کے احساسات منفی شکل اختیار کرنے کے حقیقی خدشات موجود ہیں ۔ مودی حکومت نے پڑوسی ملکوں سے ویسا رابطہ نہیں بڑھایا جیسی شروع میں توقع کی جا رہی تھی ۔ خصوصاً پاکستان سے متعلقہ پالیسی میں جارحیت اور اشتعال انگیزی کا ماحول طاری رہا ۔ رہی سہی کسر وزیر دفاع کے بیان نے پوری کر دی ۔
حالانکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کے بھارتی امیج کی ساکھ عالمی سطح پر بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور مودی سرکار اس کے لئے غیر ملکی ’’ این جی او ز ) ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اسی تناظر میں ’’ گرین پیس ‘‘ اور ’’ فورڈ فاؤنڈیشن ‘‘ جیسے اچھی شہرت کے حامل این جی اوز کی بابت مودی سرکار نے کئی مخالفانہ اقدامات اٹھائے ہیں مگر ایسی کاروائیوں سے بھارت کو کچھ حاصل ہو نے والا نہیں کیونکہ دنیا بھر میں یہ رجحان عام ہے کہ این جی اوز پر ریاست مخالف الزامات وہی حکومتیں لگا رہی ہیں جو اندرونی طور پر کمزور ہیں ۔ گویا یہ رویہ کمزور حکومتوں کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے اور یہی کچھ بھارت سرکار کی بابت بھی عالمی سطح پر تاثر پیدا ہو رہا ہے ۔
مذہبی اقلیتوں کو نشانے پر لینے کے مسلسل واقعات سے’’ طاقتور‘‘ وزیر اعظم کی خاموشی اور چشم پوشی سے بھارت کے اندر اور بیرونی دنیا میں کوئی اچھے سگنل نہیں جا رہے ۔
اور یہی وہ سب سے بڑا عنصر ہے جہاں مودی انتظامیہ اور پہلے کی حکومتوں میں سب سے بڑا فرق نظر آیا ہے ۔ اس ضمن میں یہ حقیقت بھی مدِ نظر رکھی جانی چاہیے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی سو فیصد جمہوریت موجود نہیں ہوتی مگر نسبتاً زیادہ لبرل جمہوری شناخت اور ایسا بننے کی کوشش اچھی سمجھی جاتی ہے مگر اس ضمن میں مودی کی قیادت میں گویا بھارت زوال کے سفر پر قدم رکھ چکا ہے ۔ اور عالمی سطح پر اس تاثر کا پیدا ہونا بڑے خطرے کی بات سمجھی جانی چاہیے ۔
مودی کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کہنے والے گری راج سنگھ کو مرکزی کابینہ میں جگہ دی گئی ہے ۔ مذہبی اقلیتوں کی موجودگی کو بھارتی ثقافت اور کلچر پر دھبہ قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس داغ کو ’’ لو جہاد ‘‘ اور ’’ گھر واپسی ‘‘ اور ’’ بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ ‘‘ جیسی مہموں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نس بندی اور ان سے ووٹ کا حق واپس لینے جیسی منفی کوششیں جاری ہیں اور ظاہر ہے اس کے منطقی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے بھارتی پنجاب کے سابق ڈی جی پولیس ’’ جولیو روبیرو ‘‘ اور بھارتی سپریم کورٹ کے حاضر سروس جسٹس ’’ جوزف کورین ‘‘ نے تو اس ضمن میں چار اپریل کو مودی کو بھی خط کے ذریعے تحریری شکایت کی ہے ۔
رگھو رام ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بنے ہوئے ہیں اور مہنگائی پر قابو پانے اور روپے کی شرح مزید نیچے نہ گرنے کے مشکل کام سے نبرد آزما ہیں ۔
دوسری جانب خواتین کے خلاف جرائم میں 31 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور کسانوں میں غربت کی وجہ سے خود کشی کرنے کا عمل پچھلے ایک سال میں خطر ناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور مسلم عیسائی اور سکھ اقلیتیں خود کو اور بھی غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں ۔ زی نیوز اور دیگر چینلز نے 27 مئی کو انکشاف کیا کہ مصباح نامی مسلم خاتون کو ممبئی میں اس وجہ سے کرایہ پر مکان نہیں دیا جا رہا کیونکہ وہ مسلمان ہے ۔ اس سے چند روز پہلے ذیشان نامی مسلم نوجوان کو نوکری کا اپائنٹمنٹ لیٹر دینے کے فوراً بعد تحریری طور پر یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ کمپنی کی پالیسی ہے کہ کسی مسلمان کو ملازمت نہ دی جائے اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا
بیمہ سیکٹر میں ’’ ایف ڈی آئی )میں رکاوٹیں ختم کرنے کی جانب بھی کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اس میں کوئی بڑی مشکل بھی نہ تھی کیونکہ کانگرس حکومت کے دور میں اس حوالے سے زیادہ تر رکاوٹیں تو خود ’’ بی جے پی ‘‘کی جانب سے ہی کھڑی کی جاتی رہی تھیں ۔ حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مودی کی نئی سرکار جو اب اتنی نئی بھی نہیں رہی کہ جس کے آغاز میں جس مودی میجک کی بات کی جا رہی تھی ، وہ ایک سال پورا ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
اور اب سرکار کو مودی کے جادو یا لمبے چوڑے دعووں کے آسمان سے نیچے اتر کر حقیقت کی کھردری زمین پر اپنے قدم بڑھانے ہوں گے ، جو اتنا آسان کام بھی نہیں اور یہی اس کی اصل آزمائش ہے اور شاید مودی کو اس کا کچھ ادراک ہوا بھی ہے تبھی انہوں نے 25 مئی کو متھرا میں تقریر کرتے ہوئے اپنی روایتی جملے ’’اچھے دن آ گئے ‘‘کی بجائے کہا کہ برے دن چلے گئے ہیں ۔
مبصرین کے مطابق مودی کی جانب سے یہ بالواسطہ طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے اور اگر انہوں نے عوامی فلاح کی جانب توجہ نہ دی تو نئے نئے ڈیزائنوں کے لباس پہن کر اور محض تقریروں کے بل بوتے پر تبدیلی لانے کے عمل کو تو بقول راہل گاندھی ’’ سوٹ بوٹ ‘‘ والی سرکار ہی قرار دیا جا ئے گا اور اور وزیر خزانہ ارون جیتلی کے ان دعووں پر کوئی یقین نہیں کرے گا کہ یہ سوجھ بوجھ والی سرکار ہے ۔
انتیس مئی کو پاکستان میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )