Newspaper Article 31/08/2014
سبھی جانتے ہیں کہ سارک ممالک میں سری لنکا ہی غالباً پاکستان کا کھلا حامی ہے۔ اور یہ بات یقیناً بھارت کو پسند نہیں شائد اسی وجہ سے پاک سری لنکا تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لئے ’’یو این ایچ آر سی‘‘کی بھارتی نژاد ہند و خاتون سربراہ’’ نیوی پلی ‘‘نے چند ہفتے قبل سری لنکا کی حکومت اور فوج کے خلاف مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے جو جانچ کمیشن بنایا اس کی رکن کے طور پر معروف پاکستانی شخصیت عاصمہ جہانگیر بھی نامزد کی گئی ہیں۔
اس کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ۱۹۸۲ میں بھارت نے سری لنکا میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لئے وہاں کی تامل آبادی میں ’’ایل ٹی ٹی ای ‘‘نامی ایک دہشتگرد گروپ تیار کیا جنہیں تامل ٹائیگرز بھی کہا جاتا ہے۔اس دہشتگرد تنظیم کے ہزاروں ارکان کو ہندوستان کے مختلف شہروں میں دہشتگردی کی تربیت دی گئی اور اس مقصد کے لئے بڑے پیمانے پر تربیتی کیمپ قائم کیے گئے اور پھر انھیں اسلحہ اور گولہ بارود دے کر سری لنکا میں داخل کر دیا گیا۔تب بھارت میں وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کی حکومت تھی۔ دہشتگردی کا یہ گھناؤنا کھیل بھارت کی شہ پر تقریباً ۳۰ سال تک جاری رہا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
۱۹۸۷ میں بھارتی حکومت نے بعض ناگزیر مصلحتوں کی بنا پر تامل ٹائیگرز کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے ہی تیار کردہ ان دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے بھارت نے سری لنکا میں اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج بھیج دی۔انڈین آرمی کے اس توسیع پسندانہ مشن کو ’’آپریشن پون‘‘ کا نام دیا گیا۔ تب راجیو گاندھی ہندوستان میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔اپنی انہی تضادات پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں راجیو گاندھی ۲۱ مئی ۱۹۹۱ کو تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں دہشتگردی کی ایک بڑی واردات میں جان کی بازی ہار گئے ۔مگر بھارت کی لگائی ہوئی دہشتگردی کی آگ میں سری لنکا تقریباً ۲۸ برس تک جھلستا رہا ۔
لیکن بالآخر ۲۰۰۹ کے اوائل میں ’’ایل ٹی ٹی ای‘‘کے سربراہ ’’پربھارکرن‘‘ سری لنکن فوج کے ہاتھوں مارے گئے اور مئی ۲۰۰۹ تک سری لنکا نے اس دہشتگرد گروہ پر پوری طرح قابو پا لیا۔دہشتگردی کے خاتمے کی اس جدوجہد میں سری لنکن آرمی کے ہاتھوں فطری طور پر غالباً کچھ بے گناہ لوگ بھی مارے گئے ہوں گے۔مگر دہلی سرکار نے بیرونی دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس لڑائی کے آخری مراحل میں تقریباً ۴۰ ہزار شہری مارے گئے حالانکہ غیر جانبدار حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ یہ بھارتی اعداد و شمار سراسر مبالغہ آ رائی پر مبنی ہیں ۔اور اس بھارتی کوشش کا مقصد یہ ہے کہ سری لنکا کی حکومت مسلح افواج اور وہاں کے عوام کو بلاوجہ عالمی برادری میں بدنام کیا جائے۔یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ سری لنکا کے تعلقات چین کے ساتھ انتہائی بہتر ہیں اس لئے اس بھارتی پراپیگنڈے میں بہت سے مغربی ممالک نے بھی سری لنکا کے خلاف الزام تراشی کی۔ ۲۰۱۲ اور ۲۰۱۳ میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کے سالانہ اجلاس میں امریکہ سمیت بہت سے مغربی ممالک نے سری لنکا کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قرار داد پیش کی اور دہلی سرکار نے بھی اس قرار داد کی بھر پور حمایت کی البتہ مارچ ۲۰۱۴ میں بھارتی سرکار نے اس قرار داد کی حمایت سے گریز کیا ۔نومبر ۲۰۱۳ میں سری لنکا کے دارالحکومت ’’کولمبو‘‘ میں دولتِ مشترکہ سربراہوں کی کانفرنس ہوئی تو بھارتی صوبے تامل ناڈو کی علاقائی پارٹیوں اور رہنماؤں خصوصاً جے للیتا اور کرونانندھی نے منموہن سنگھ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس اجلاس میں شریک نہ ہوں لہذا منموہن سنگھ نے اس سربراہ اجلاس میں خود شرکت کرنے کی بجائے اپنے وزیرِ خارجہ سلیمان خورشید کو بھیجا۔
اس سربراہ اجلاس سے پہلے اور بعد میں گذشتہ کافی عرصے سے مغربی ممالک اور بھارت سری لنکا کی حکومت پر زور دیتےء رہے ہیں کہ وہ اپنی تامل آبادی کے خلاف ہونے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لئے عالمی برادری کو اجازت دے مگر سری لنکا کے صدر ’’مہندر راج پکشے‘‘ کی حکومت نے اس اشتعال انگیز مطالبے کو سختی سے ٹھکرا دیا۔مگر چند ہفتے پہلے ۲۶ جون ۲۰۱۴ کو ’’یو این ایچ آر سی‘‘کی سربراہ نے ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جس کے ارکان میں فن لینڈ کے سابق صدر مارتی،نیوزی لینڈ کے سابق گورنر جنرل کارٹرائیٹ اور پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر شامل ہیں۔جو ستمبر میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کریں گے۔غیر جانبدار سفارتی مبصرین نے کہا ہے کہ فن لینڈ اور نیوزی لینڈ کے کسی قسم کے قومی مفادات سری لنکا سے وابستہ نہیں جبکہ پاکستان کا معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ لہذا بھارت اور چند دوسرے ملکوں نے اس نام نہاد کمیشن میں عاصمہ جہانگیر کا نام شامل کر کے درحقیقت پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایسے میں حکومتِ پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ سری لنکا کی حکومت اور عوام پر پوری طرح واضح کرے کہ عاصمہ جہانگیر کی رائے محض ان کی ذاتی ہے اور اس کا پاکستان عوام اور حکومت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔کیونکہ اس امر سے سری لنکا سمیت ساری دنیا آگاہ ہے کہ ماضی قریب میں موصوفہ نے کبھی مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کی مذمت نہیں کی البتیہ خود پاکستان کے اندر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے میں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہیں تا کہ دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو مجروح کیا جائے۔ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ حکومتی حلقے ،سول سوسائٹی اور میڈیا ایسا مثبت کردارکرے گا جس سے پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کی سازشیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔
اگست 22 کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذٓتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)