Newspaper Article 20/07/2017
افغان عوام کی زندگیاں اس وقت خطرے ہیں ۔ اکتیس مئی 2017 کی صبح 8:20 پر ایک دہشتگرد حملے نے کابل کو ہلا کر رکھ دیا ۔ کابل کے نواح میں ’’ وزیر اکبر خان ‘‘ کے مقام پر ( جہاں غیر ملکی سفارت خانے کافی بڑی تعداد میں واقع ہیں ) دھماکہ خیز مواد سے بھرے ایک ٹینکر کے ذریعے چاروں طرف تباہی پھیلا دی گئی جس کے نتیجے میں 90 افراد موقع پر دم توڑ گئے جبکہ 461 زخمی ہوئے ۔ایسے میں افغان عوام کا اعتماد اپنی حکومت پر سے پھر اٹھ گیا جو کہ ان کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ۔
یاد رہے کہ داعش ،جو افغانستان میں کسی حد تک نو وارد مگر اس صورتحال میں انتہائی سر گرم ہے ، کی جانب سے 2017 میں یہ پہلا دہشتگرد حملہ نہیں۔ جس نے افغان حکومت کی رِٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ دہشتگردی کے ان تازہ واقعات نے امن عمل کو بہت حد تک پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ قابلِ ذکر ہے کہ طالبان کی جانب سے واضح الفاظ میں اس تازہ حملے سے لا تعلقی ظاہر کی گئی جس سے اس حملے میں داعش کے ملوث ہونے کے اندیشے کو مزید تقویت ملتی ہے جو کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے سے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی کیونکہ طالبان کی مانند ان کی سرگرمیاں کسی خاص خطے یا ملک تک محدود نہیں ۔
داعش کا امریکہ کو رد عمل ؟
در حقیقت داعش نے افغانستان میں طالبان کی بہ نسبت حالیہ مہینوں میں کہیں زیادہ تباہی پھیلانے کا دعویٰ کی ۔ جیسا کہ اسی عرصے کے دوران کابل کے ملٹری ہسپتال سانحے میں پچاس سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور اس واقعے کی ذمہ داری بھی داعش کی جانب سے قبول کی گئی ۔ سبھی جانتے ہیں کہ افغان حکومت کی جانب سے افغانستان میں داعش کی موجودگی کی تصدیق کی گئی اور داعش کی جانب سے یہی بات کہی گئی ۔ یہ ان تجزیہ کاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی سے ہونے والے علاقائی نقصانات اور خطرات کو گھٹا کر پیش کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ 13 اپریل 2017 کو افغانستان میں امریکہ کی جانب سے ہونے والی نام نہاد بمباری اتنی موثر نہیں تھی جتنا کہ اس کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ مبصرین کے مطابق یہ عراق اور شام میں بھی دیکھنے میں آیا کہ جب داعش کے خلاف کوئی بڑا حملہ کیا گیا تو داعش نے اس کا جواب کسی بڑے خودکش حملے سے دیا شاید یہ ذہن نشین کرانے کے لئے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔
اگرچہ افغانستان میں مذکورہ تازہ حملے کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول نہیں کی گئی مگر اس حملے میں داعش کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یاد رہے کہ کسی فریق کی جانب سے اس حملے کی اعلانیہ طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی گئی مگر سوشل میڈیا اور داعش کے قریبی ذرائع ثابت کرتے ہیں کہ یہ تازہ حملہ 13 اپریل کی امریکی بمباری کا ردعمل تھا ۔
ابہام کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی
ماہرین کے مطابق بظاہر داعش ، حملوں کی فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ یہ ذہن نشین رہے کہ داعش اور طالبان کے بیچ فرق پورے افغانستان کے کسی بھی حصے میں محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ بد ترین دہشتگرد بھی اس چیز کو محسوس کرتے ہیں جو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے اور پھر اسی حساب رد عمل دیتے ہیں ۔ یعنی کسی حملے کی بابت واضح دعویٰ کرنے کی بجائے اسے ابہام میں رکھنے اور افغان حکومت کی نا اہلیوں کو اجاگر کرنے کا آسان طریقے لوگوں کے غصے کو ابھارنا ہے اور داعش اور طالبان غالباً اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ۔ اور غیر یقینی کی یہ صورتحال افغانستان کے امن عمل کے لئے انتہائی تباہ کن ہے ۔
تحریر: ڈیڈیئر شودت:فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں۔ وہ افغانستان، پاکستان، ایران اوروسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور‘‘، ’’پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز‘‘، ’’فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز‘‘ اور ’’یالے یونیورسٹی‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’اپری‘‘ (اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) سے ’’نان ریزیڈنٹ سکالر‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں۔ ترجمعہ: اصغر علی شاد
یاد رہے کہ داعش ،جو افغانستان میں کسی حد تک نو وارد مگر اس صورتحال میں انتہائی سر گرم ہے ، کی جانب سے 2017 میں یہ پہلا دہشتگرد حملہ نہیں۔ جس نے افغان حکومت کی رِٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ دہشتگردی کے ان تازہ واقعات نے امن عمل کو بہت حد تک پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ قابلِ ذکر ہے کہ طالبان کی جانب سے واضح الفاظ میں اس تازہ حملے سے لا تعلقی ظاہر کی گئی جس سے اس حملے میں داعش کے ملوث ہونے کے اندیشے کو مزید تقویت ملتی ہے جو کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے سے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی کیونکہ طالبان کی مانند ان کی سرگرمیاں کسی خاص خطے یا ملک تک محدود نہیں ۔
داعش کا امریکہ کو رد عمل ؟
در حقیقت داعش نے افغانستان میں طالبان کی بہ نسبت حالیہ مہینوں میں کہیں زیادہ تباہی پھیلانے کا دعویٰ کی ۔ جیسا کہ اسی عرصے کے دوران کابل کے ملٹری ہسپتال سانحے میں پچاس سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور اس واقعے کی ذمہ داری بھی داعش کی جانب سے قبول کی گئی ۔ سبھی جانتے ہیں کہ افغان حکومت کی جانب سے افغانستان میں داعش کی موجودگی کی تصدیق کی گئی اور داعش کی جانب سے یہی بات کہی گئی ۔ یہ ان تجزیہ کاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی سے ہونے والے علاقائی نقصانات اور خطرات کو گھٹا کر پیش کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ 13 اپریل 2017 کو افغانستان میں امریکہ کی جانب سے ہونے والی نام نہاد بمباری اتنی موثر نہیں تھی جتنا کہ اس کا ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ مبصرین کے مطابق یہ عراق اور شام میں بھی دیکھنے میں آیا کہ جب داعش کے خلاف کوئی بڑا حملہ کیا گیا تو داعش نے اس کا جواب کسی بڑے خودکش حملے سے دیا شاید یہ ذہن نشین کرانے کے لئے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔
اگرچہ افغانستان میں مذکورہ تازہ حملے کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول نہیں کی گئی مگر اس حملے میں داعش کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یاد رہے کہ کسی فریق کی جانب سے اس حملے کی اعلانیہ طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی گئی مگر سوشل میڈیا اور داعش کے قریبی ذرائع ثابت کرتے ہیں کہ یہ تازہ حملہ 13 اپریل کی امریکی بمباری کا ردعمل تھا ۔
ابہام کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی
ماہرین کے مطابق بظاہر داعش ، حملوں کی فوری طور پر ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ یہ ذہن نشین رہے کہ داعش اور طالبان کے بیچ فرق پورے افغانستان کے کسی بھی حصے میں محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ حتیٰ کہ بد ترین دہشتگرد بھی اس چیز کو محسوس کرتے ہیں جو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے اور پھر اسی حساب رد عمل دیتے ہیں ۔ یعنی کسی حملے کی بابت واضح دعویٰ کرنے کی بجائے اسے ابہام میں رکھنے اور افغان حکومت کی نا اہلیوں کو اجاگر کرنے کا آسان طریقے لوگوں کے غصے کو ابھارنا ہے اور داعش اور طالبان غالباً اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ۔ اور غیر یقینی کی یہ صورتحال افغانستان کے امن عمل کے لئے انتہائی تباہ کن ہے ۔
تحریر: ڈیڈیئر شودت:فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں۔ وہ افغانستان، پاکستان، ایران اوروسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور‘‘، ’’پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز‘‘، ’’فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز‘‘ اور ’’یالے یونیورسٹی‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’اپری‘‘ (اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) سے ’’نان ریزیڈنٹ سکالر‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں۔ ترجمعہ: اصغر علی شاد
بائیس جولائی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )