Newspaper Article 16/05/2018
ہندوستانی حکمرانوں نے توسیع پسندی پر مبنی جو پالیسی عرصہ دراز سے اپنا رکھی ہے وہ ایسا کھلا راز ہے جس کی بابت غالباً ہر ذی شعور بخوبی آگاہ ہے۔ اسی تناظر میں ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے جنوبی ایشیاء کی بدقسمتی قرار دیا جائے یا حالات کی ستم ظریفی کہ جنوبی ایشیاء کی تمام زمینی یا سمندری حدود بھارت سے متصل ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہلی سرکار کی ہمیشہ سے یہ شعوری کوشش اور خواہش رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہ ہو سکے اور تمام ہمسایے کسی نہ کسی طور بھارت کے دستِ نگر رہیں۔ اپنی اسی توسیع پسندانہ حکمت عملی کے تحت ایک طویل عرصے تک سری لنکا بھارتی سازشوں کا مرکز رہا اور سری لنکا کے علاقے ’’جافنا‘‘ کو لے کر بھارت نے دہشتگردی کے سلسلے کو بے پناہ طوالت دی ۔ بعد ازاں سری لنکا میں ’’انڈین پیس کیپنگ فورس‘‘ کے نام پر بھارت نے باقاعدہ اپنی فوج داخل کر دی اور اس کے بعد ہونے والے واقعات و حوادث تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اپنی ہی بھڑکائی ہوئی اس آگ کے نتیجے میں غالباً مکافات عمل کا شکار ہو کر سابق بھارتی وزیراعظم ’’راجیو گاندھی‘‘ بھی دہشتگردی کی نذر ہو گئے۔ اس کے بعد بھی ایل ٹی ٹی ای اور تامل ٹائیگرز کے ذریعے یہ خطہ کسی نہ کسی طور متاثر ہوتا چلا آیا ہے۔
دوسری طرف اپنے چھوٹے ہمسایے مالدیپ کے خلاف بھارت نے جس طرح فوج کشی کی ، وہ بھی بھارتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پھر مشرقی پاکستان میں تو دہلی سرکار نے اپنی فوج کشی کر کے پاکستان کو دولخت کر دیا اور اس کا اعتراف اندرا گاندھی سے لے کر مودی، واجپائی ، حسینہ واجد اور ہر چھوٹے بڑے بھارتی حکمرانوں نے فخریہ طور پر کیا اور اس کی تفصیلات ساری دنیا پر عیاں ہیں۔ جون 2015 کے پہلے ہفتے میں مودی نے دورِ ڈھاکہ کے دوران پاکستان کی بابت جو زہر اگلا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں 1987-88 میں نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ اس کے علاوہ دو برس قبل نیپال میں نئے آئین کے نفاذ کے حوالے سے بھارت نے کھلی اشتعال انگیزی پر مبنی جو رویہ اختیار کیا اس کی مذمت کے لئے الفاظ ڈھونڈ پانا بھی شاید ممکن نہیں۔ بھوٹان میں بھی اکثر و بیشتر بھارت اپنی شرائط منواتا چلا آیا ہے۔دوسری طرف اس معاملے کی تفصیلات کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 2016 کے سارک سربراہ اجلاس کو بھی بھارت نے پاکستان پر بے بنیاد الزمات لگا کر ان کی آڑ میں سبوتاژ کر دیا ۔اپنی خفیہ ایجنسی را، آئی بی اور کابل میں بھارتی مہرے این ڈی ایس کے ذریعے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشتگردی کو ہر ممکن ڈھنگ سے پروان چڑھانے کی سعی کی جا رہی ہے اور ان معاملات کے دستاویزی ثبوت پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد بار دنیا کے سامنے لائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادو کے ذریعے جس طرح خود بھارتی ایجنسیاں دہشتگردی کو پروان چڑھا رہی تھیں، وہ بھی سب کے سامنے آ چکا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ رہنا چاہیے کہ دہلی کے حکمرانوں نے گوا ،دکن حیدرآباد، مناور، جوناگڑھ ، سکم اور مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا اور جنوبی تبت (مقبوضہ ارونا چل پردیش) میں اشتعال انگیزیوں پر مبنی جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس میں بھی گاہے بگاہے شدت آتی رہی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہلی کے حکمران اپنے سارے چھوٹے اور بڑے ہمسایوں کے ساتھ قیام امن کی بابت ذرا بھی مخلص نہیں اور وہ خطے میں اپنی بالا دستی پر مبنی پالیسیاں اپنی شرائط پر آگے بڑھانے کا مکروہ عمل جاری رکھنے کی سعی کر رہے ہیں۔ حرف آخر کے طور پر غالباً یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بھارت چھوٹی ذہنیت کا ایک بڑا ملک ہے‘‘ ( بگ کنٹری ود سمال مینٹلٹی ) ۔
بارہ مئی کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)