Newspaper Article 28/08/2014
صدرِ مملکت نے یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اگرچہ امن کا خواہاں ہے مگر کسی کی بالادستی قبول نہیں کی جائے گی علاوہ ازیں وزیرِ اعظم نے بھی اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ اگرچہ پاکستان ہمسایوں سمیت سب ممالک سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کا خواہش مند ہے مگر خطے میں کشیدگی کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ۔
اس سے پہلے دفترِ خارجہ کی ترجمان نے بھی بھارتی وزیرِ اعظم کے ان الزامات کو یکسر مسترد کر دیا جو انہوں نے چند روز پہلے ’’لداخ‘‘ میں پاکستان پر عائد کیے تھے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ۱۲ اگست کو بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے مقبوضہ جموں کشمیر کے خطے لداخ کا دورہ کیا اور وہاں انڈین آرمی اور ایئر فورس کے دستوں سے خطاب کے دوران پاکستان کی بابت انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے کہا کہ ’’پاکستان چونکہ روا یتی جنگ لڑنے کی اہلیت کھو چکا ہے اس لئے مقبوضہ کشمیر میں ’’پراکسی وار‘‘ لڑ رہا ہے۔واضح رہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد مودی کا مقبوضہ کشمیر کا یہ دوسرا دورہ تھا ۔اس سے پہلے گذشتہ ماہ انہوں نے ’’ادھم پور، کٹرہ‘‘ ریلوے لائن کے سیکشن کا افتتاح کیا تھا تا کہ وشنو دیوی جانے والے یاتریوں کا سفر آسان ہو سکے اور ۱۲ اگست کو اپنے دورہ لداخ کے دوران کارگل میں ۴۴ میگاواٹ کے ’’چھوٹک پاور پراجیکٹ‘‘ کا افتتاح کرنے کے علاوہ لداخ کے ضلع ’’لیہہ‘‘ میں پینتالیس میگاواٹ کے ’’نیمو بازغو‘‘پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے ساتھ ۱۷۰۰ کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی سری نگر لیہہ ٹرانشمیشن لائن کا افتتاح بھی کیا۔
مبصرین کے مطابق نئی بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط مزید پختہ کرنے کے لئے خاصی سرگرم ہے خصوصاً ریاست کے جموں اور لداخ ریجن (جہاں غیر مسلم کافی بڑی تعداد میں بستے ہیں) بار بار جانے کا مقصد یہ ہے کہ بیرونی دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ہندوستان سے آزادی کی تحریک کا دائرہ محض وادیِ کشمیر تک محدود ہے۔اس کے علاوہ مودی کا ہدف نومبر،دسمبر ۲۰۱۴ میں ہونے والے مقبوضہ ریاست کے انتخابات بھی ہیں۔ ’’بی جے پی‘‘ کی خواہش اور کوشش ہے کہ ریاستی اسمبلی کے ان نام نہاد انتخابات میں کل ۸۷ میں سے کم از کم ۴۴ سیٹیں جیت کر ریاستی حکومت بنائی جا سکے۔اسی وجہ سے وہ مقبوضہ کشمیر کی غیر مسلم آبادی کی خاص طور پر سرپرستی کر رہی ہے ۔
۱۲اگست کے روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے مطابق حریت قائد میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ مودی اور بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں ہندو مسلم منافرت کا ۲۰۰۸ والا ماحول پیدا کرنے کے لئے جموں اور لداخ کے پے در پے دورے کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر اس کے تنائج بھارت کے لئے انتہائی خطرناک ہوں گے۔
یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ہندی روزنامے ’’نو بھارت ٹائمز‘‘نے اپنی ۱۲ اگست کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ بھارتی صوبے تلنگانہ (سابقہ دکن حیدرآباد) کے وزیرِ اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کی صاحبزادی اور رکنِ لوک سبھا ’’کے کویتا‘‘ کے خلاف آندھرا پردیش پولیس نے دہلی سرکار کے حکم پر’’ غداری ‘‘کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس انسان دوست خاتون پر الزام ہے کہ انہوں نے تقریباً ایک ماہ قبل اپنے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ جموں کشمیر اور تلنگانہ بھارت کا حصہ نہیں کیونکہ ان علاقوں پر قوت کے زور پر قبضہ کیا گیا تھا۔انہوں نے اپنا موقف مزید آگے بڑھاتے ہوئے واضح کیا کہ ’’کشمیر اور تلنگانہ دونوں الگ الگ دیش تھے جن پر بھارت نے قوت کے زور پر قبضہ کیا ہوا ہے لہذا بھارت کو جموں کشمیر کے خطے میں نئی بین ا لاقوامی سرحد کا تعین کرنا چاہیے اور تسلیم کرنا چاہیے کہ جموں کشمیر کے اکثر علاقے بھارت کا حصہ نہیں ‘‘۔مندرجہ بالا الفاظ موصوفہ کے خلاف درج ایف آئی آر میں لکھے گئے ہیں۔یاد رہے کہ ممتاز بھارتی قانون دان اور عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما ’’پرشانت بھوشن‘‘ بھی ستمبر ۲۰۱۱ اور فروری ۲۰۱۴ میں کہ چکے ہیں کہ اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انہیں آزادی دے دی جائے۔گذشتہ ماہ بھارتی دانشور ’’ڈاکٹر وید پرتاب ویدک‘‘ بھی اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں۔ ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ بھارت سرکار پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشیوں کی بجائے کشمیر کے منصفانہ حل کی جانب پیش قدمی کرنے گی اگرچہ بعض حقیقت پسند حلقوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو یاد دلایا ہے کہ بھارت سے دوستی کی کوشش کرتے ہوئے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا جائے کیونکہ بقوم شخصے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاق سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اگست 19 کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذآتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)