Newspaper Article 08/09/2015
جنگ ستمبر کے دوران جس طرح زمین پر چاہے وہ صحرا ہوں ،پنجاب کے زرخیز میدان یا کشمیر کی برف پوش چوٹیاں ۔ سب جگہ پاک بری فوج کا راج تھا ۔ فضاؤں پر پاک شاہینوں کی حکمرانی تھی ۔ ایسے میں بھلا پاک نیوی کیسے پیچھے رہتی۔ تبھی تو اس کے غازیوں نے سمندر پر اپنا سکہ کچھ اس ڈھنگ سے جمایا کہ اس شعر کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے ایک بار پھر آ گئی
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
65 کی جنگ میں بحریہ کے سربراہ ایڈمرل اے آر خان تھے ۔ بحریہ کے کارناموں کا ذکر کرنے سے پہلے انڈین نیوی اور پاک بحریہ کی ظاہری قوت کو سمجھنا ضروری ہے ۔ بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ’’ وکرانت ‘‘( جس پر 80 لڑاکا طیارے تھے ) جبکہ اس ضمن میں پاکستان بالکل تہی دامن تھا ۔ پاکستان کے پاس ایک آبدوز ’’ غازی ‘‘ ۔ بھارت کے پاس 21 جبکہ پاکستان کے پاس صرف 7 تباہ کن جہاز تھے ۔ پاکستان کے پاس ایک کروزر جبکہ بھارت کے پاس دو تھیں ۔ مائن سویپر پاکستان کے پاس آٹھ جبکہ بھارت کے پاس سات ، تیل بردار جہاز دونوں کے پاس ایک ایک ، متفرق جہاز بھارت کے پاس 16 تھے ۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کے 18 کے مقابلے میں بھارتی بحری قوت 48 تھی ۔ بھارتی حملے کی اطلاع ملتے ہی چھ ستمبر کو پاک بحریہ نے کھلے سمندروں میں نکل کر اپنے اسٹیشن سنبھال لیے ۔ بحری کمانڈر جانتے تھے کہ وہ کس قدر ہیبت ناک قوت کے مقابلے پر جا رہے ہیں ۔ ظاہری طور پر پاک بحریہ جیسی چھوٹی قوت ختم کرنے کے لئے انڈین نیوی کا ’’ وکرانت ‘‘ اور دیگر بحری جہاز ’’ رانا ‘‘ ، ’’ رنجیت ‘‘ اور ’’ میسور ‘‘ ہی کافی تھے ۔
پہلے دو روز انڈین نیوی سمندر سے غائب رہی ۔ سات اور آٹھ کی درمیانی شب پاک بحریہ کو ’’ دوارکا ‘‘ کے سمندری قلعے کی تباہی کا حکم ملا ۔( یاد رہے کہ سومنات کا موجودہ نام دوارکا ہے ) ۔ یہاں ایک طاقتور ریڈار نصب تھا جو بیرونی ہوائی حملے سے جام نگر ہوائی اڈے کو خبر دار کرتا تھا ۔ علاوہ ازیں پاکستان پر حملوں کے لئے اپنے طیاروں کی رہنمائی کرتا تھا ۔ دوارکا بھارت کا ایک بڑا فوجی ٹھکانہ تھا جہاں انڈین نیوی کا ’’ تارپیڈو ٹریننگ سکول ‘‘ بھی تھا ۔
پاک بحریہ نے پہلے دوارکا کے ساحلی توپ خانے کو خاموش کیا اور پھر گولہ باری کر کے ٹارگٹ کو بھسم کر دیا ۔ اس دوران انڈین ایئر فورس نے ہمارے بحری جہازوں پر حملہ کیا لیکن بحری توپچیوں نے تین بھارتی جہازوں کو مار گرایا ۔ توقع تھی کہ بھارتی بدلہ لینے کے لئے باہر آئیں گے مگر وہ پاک نیوی کی پہلی ضرب سے دہشت زدہ ہو کر اپنی بندر گاہوں میں دبک کر رہ گئے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ دوارکا پر پاک حملے کے وقت بھارت کے چار ’’ فری گیٹ ‘‘ جہازخلیج میں موجود تھے مگر حملے کا سن کر وہ کچھ اور آگے نکل گئے ۔ دن گزرتے رہے ، بحری غازی بے قراری سے دشمن کی تلاش میں کھلے سمندروں میں پھرتے رہے ۔ آبدوز غازی بھارت کی بڑی بندگاہ کے سامنے کھڑی رہی ۔ اسی بندرگاہ میں تینوں بڑے جہاز ’’ رانا ‘‘ ، ’’ رنجیت ‘‘ اور ’’ میسور ‘‘ بھی کھڑے تھے ۔ دوسری جانب اسی دوران پاک بحریہ کراچی بندر گاہ میں داخل ہونے اور باہر جانے والے جہازوں کو اپنی حفاظت میں لے کر جنگی علاقے سے بحفاظت نکالتی رہی ۔ آخر بائیس ستمبر کو انڈین نیوی کے چار ’’ فری گیٹ ‘‘ ( جو دور سے آبدوز کا پتہ لگانے کی اہلیت رکھتے تھے ) باہر آئے ۔ فری گیٹ کو آبدوز شکن بھی کہا جاتا ہے ۔ غازی آبدوز نے مہارت اور دلیری سے ان چاروں جہازوں سے ٹکر لی اور ایک کو ’’ تارپیڈو‘‘ کی زد میں لا کر ڈبو دیا ۔ باقی تینوں نے غازی کو گھیرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے ۔
اگلے روز فائر بندی ہو گئی ۔ آل انڈیا ریڈیو نے حسبِ عادت جھوٹ بولتے ہوئے خبر نشر کی کہ پاکستانی نیوی نے جو جہاز ڈبویا وہ بھارتی نہیں بلکہ ایرانی تھا ۔ بہرکیف جنگِ ستمبر میں پاک بحریہ نے بھی بری اور فضائی افواج کی مانند دشمن سے اپنا لوہا منوایا لہذا اسی وجہ سے آٹھ ستمبر کو نیول ڈے کے موقع پر پوری قوم اپنے ان فرزندوں کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہے ۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
65 کی جنگ میں بحریہ کے سربراہ ایڈمرل اے آر خان تھے ۔ بحریہ کے کارناموں کا ذکر کرنے سے پہلے انڈین نیوی اور پاک بحریہ کی ظاہری قوت کو سمجھنا ضروری ہے ۔ بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ’’ وکرانت ‘‘( جس پر 80 لڑاکا طیارے تھے ) جبکہ اس ضمن میں پاکستان بالکل تہی دامن تھا ۔ پاکستان کے پاس ایک آبدوز ’’ غازی ‘‘ ۔ بھارت کے پاس 21 جبکہ پاکستان کے پاس صرف 7 تباہ کن جہاز تھے ۔ پاکستان کے پاس ایک کروزر جبکہ بھارت کے پاس دو تھیں ۔ مائن سویپر پاکستان کے پاس آٹھ جبکہ بھارت کے پاس سات ، تیل بردار جہاز دونوں کے پاس ایک ایک ، متفرق جہاز بھارت کے پاس 16 تھے ۔ یوں مجموعی طور پر پاکستان کے 18 کے مقابلے میں بھارتی بحری قوت 48 تھی ۔ بھارتی حملے کی اطلاع ملتے ہی چھ ستمبر کو پاک بحریہ نے کھلے سمندروں میں نکل کر اپنے اسٹیشن سنبھال لیے ۔ بحری کمانڈر جانتے تھے کہ وہ کس قدر ہیبت ناک قوت کے مقابلے پر جا رہے ہیں ۔ ظاہری طور پر پاک بحریہ جیسی چھوٹی قوت ختم کرنے کے لئے انڈین نیوی کا ’’ وکرانت ‘‘ اور دیگر بحری جہاز ’’ رانا ‘‘ ، ’’ رنجیت ‘‘ اور ’’ میسور ‘‘ ہی کافی تھے ۔
پہلے دو روز انڈین نیوی سمندر سے غائب رہی ۔ سات اور آٹھ کی درمیانی شب پاک بحریہ کو ’’ دوارکا ‘‘ کے سمندری قلعے کی تباہی کا حکم ملا ۔( یاد رہے کہ سومنات کا موجودہ نام دوارکا ہے ) ۔ یہاں ایک طاقتور ریڈار نصب تھا جو بیرونی ہوائی حملے سے جام نگر ہوائی اڈے کو خبر دار کرتا تھا ۔ علاوہ ازیں پاکستان پر حملوں کے لئے اپنے طیاروں کی رہنمائی کرتا تھا ۔ دوارکا بھارت کا ایک بڑا فوجی ٹھکانہ تھا جہاں انڈین نیوی کا ’’ تارپیڈو ٹریننگ سکول ‘‘ بھی تھا ۔
پاک بحریہ نے پہلے دوارکا کے ساحلی توپ خانے کو خاموش کیا اور پھر گولہ باری کر کے ٹارگٹ کو بھسم کر دیا ۔ اس دوران انڈین ایئر فورس نے ہمارے بحری جہازوں پر حملہ کیا لیکن بحری توپچیوں نے تین بھارتی جہازوں کو مار گرایا ۔ توقع تھی کہ بھارتی بدلہ لینے کے لئے باہر آئیں گے مگر وہ پاک نیوی کی پہلی ضرب سے دہشت زدہ ہو کر اپنی بندر گاہوں میں دبک کر رہ گئے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ دوارکا پر پاک حملے کے وقت بھارت کے چار ’’ فری گیٹ ‘‘ جہازخلیج میں موجود تھے مگر حملے کا سن کر وہ کچھ اور آگے نکل گئے ۔ دن گزرتے رہے ، بحری غازی بے قراری سے دشمن کی تلاش میں کھلے سمندروں میں پھرتے رہے ۔ آبدوز غازی بھارت کی بڑی بندگاہ کے سامنے کھڑی رہی ۔ اسی بندرگاہ میں تینوں بڑے جہاز ’’ رانا ‘‘ ، ’’ رنجیت ‘‘ اور ’’ میسور ‘‘ بھی کھڑے تھے ۔ دوسری جانب اسی دوران پاک بحریہ کراچی بندر گاہ میں داخل ہونے اور باہر جانے والے جہازوں کو اپنی حفاظت میں لے کر جنگی علاقے سے بحفاظت نکالتی رہی ۔ آخر بائیس ستمبر کو انڈین نیوی کے چار ’’ فری گیٹ ‘‘ ( جو دور سے آبدوز کا پتہ لگانے کی اہلیت رکھتے تھے ) باہر آئے ۔ فری گیٹ کو آبدوز شکن بھی کہا جاتا ہے ۔ غازی آبدوز نے مہارت اور دلیری سے ان چاروں جہازوں سے ٹکر لی اور ایک کو ’’ تارپیڈو‘‘ کی زد میں لا کر ڈبو دیا ۔ باقی تینوں نے غازی کو گھیرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے ۔
اگلے روز فائر بندی ہو گئی ۔ آل انڈیا ریڈیو نے حسبِ عادت جھوٹ بولتے ہوئے خبر نشر کی کہ پاکستانی نیوی نے جو جہاز ڈبویا وہ بھارتی نہیں بلکہ ایرانی تھا ۔ بہرکیف جنگِ ستمبر میں پاک بحریہ نے بھی بری اور فضائی افواج کی مانند دشمن سے اپنا لوہا منوایا لہذا اسی وجہ سے آٹھ ستمبر کو نیول ڈے کے موقع پر پوری قوم اپنے ان فرزندوں کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہے ۔
آٹھ ستمبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )