Newspaper Article 03/06/2014
۲۸اور ۲۹مئی کو اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس کا موضوع ’’پاکستان سٹریٹجک انوائرمنٹ۔۔۔پوسٹ ۲۰۱۴ ) تھا۔یہ کانفرنس ’’اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ اور’’ ایچ ایس ایف ‘‘کے باہمی اشتراک سے ہوئی۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ریٹائرڈ امبیسیڈر’’سہیل امین‘‘ نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں اس کانفرنس کے انعقاد کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے متوقع امریکی انخلا کے بعد پاکستان اور خطے کو درپیش ممکنات کے حوالے سے اس سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔اس کے بعد چیف گیسٹ ’’سید طارق فاطمی‘‘ (وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور )نے تفصیل سے بتایا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی ہمیشہ سے خواہش اور کوشش رہی ہے کہ تمام پڑوسی ملکوں سمیت دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھے جائیں اور اس مقصد کے لئے بھرپور سفارتی کوششیں کی جائیں۔اس لئے جب سے موجودہ حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے تو اس نے موثر اور فعال حکمتِ عملی کے ذریعے بھر پور کوشش کی ہے کہ خطے میں تصادم کی بجائے تعاون کی حکمتِ عملی کو فروغ دیا جائے اسی مقصد کے لئے گذشتہ ایک سال میں وزیرِ اعظم ہمسایہ ممالک چین،ایران اور افغانستان گئے ۔
اسی ضمن میں وزیرِ اعظم نے ۲۶ اور ۲۷ مئی کو اپنے دورہ دہلی کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم سے سبھی تنازعات کے پرامن حل کی بابت مذاکرات بھی کیے اور دونوں ممالک سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کی بحالی پر متفق بھی ہو گئے ۔انھوں نے توقع ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں پاکستان کی یہ سفارتی کوششیں بارآور ثابت ہوں گی اور علاقائی تعاون کو فروغ ملے گا۔اس کانفرنس کی مختلف نشستوں میں مقررین نے دسمبر ۲۰۱۴ میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد کی ممکنہ صورتحال پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی اور ہر طرح کے خدشات اور توقعات کا اظہار کیا۔بھارت سے آئے ڈاکٹر ’’گلشن سچدیو‘‘ نے اس ضمن میں اپنی حکومت کا موقف پیش کیا اور علاقائی تجارت کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔جبکہ کچھ مقررین نے کہا کہ اب دوسرے ملکوں میں مسلح مداخلت کا دور گزر گیا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے امریکی صدر اوبامہ کی ایک حالیہ تقریر کو بنیاد بنایا ۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ڈاکٹر حفیظ نے اپنی تحقیق اور مختلف سروے رپورٹس کی بنیاد پر یہ رائے ظاہر کی کہ پاکستان کے قریب ترین ہمسایوں کی بابت پاکستانی عوام اور سول سوسائٹی درج ذیل شرح سے جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں ۔انہوں نے اس بابت ایک ریٹنگ انڈیکس بھی پیش کیا۔جس کے مطابق چین کا سکور ۵۶ ہے ۔جبکہ ایران دوسرے نمبر پر ہے جس کا سکور ۳۸ ہے۔ افغانستان اس حوالے سے ۳۵ سکور کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے اور اس پوائنٹ ٹیبل پر بھارت (منفی اکتالیس) ۴۱- ہے۔
موصوف نے اس ضمن میں کئی عوامل کا ذکر کیا جس کو بنیاد بنا کر انہوں نے یہ انڈیکس مرتب کیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو تضادات پر مبنی اس صورتحال میں جینے کا ڈھنگ سیکھنا ہو گا۔چین، روس اور جرمنی سے آئے سکالرز نے بھی پر مغز مقالے پیش کیے۔ ۔اکثر مقررین کی رائے تھی کہ علاقائی تجارت کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے ۔چند مقررین کی رائے تھی کہ چین کی ترقی میں ہمارے لئے بہت سے سبق پنہاں ہیں۔
البتہ برطانیہ میں سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا خیال تھا کہ بظاہر مسلح مداخلت کا دور کبھی بھی ختم نہیں ہوتا لہذا اس بابت بہت زیادہ خوش گمانی پر مبنی توقعات قائم کرنا قبل از وقت ہیں۔ ان کی رائے یہ بھی تھی کہ محض بہتری کی امید پر کوئی ٹھوس حکمتِ عملی مرتب نہیں کی جا سکتی بلکہ ٹھوس زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھ کر ہی حالات بہتر بنائے جا سکتے ۔سا بق وفاقی وزیر ’’شیری رحمن‘‘ نے بھی نہایت موثر الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس کی سفارشات میں اس امر کا ذکر کیا گیا کہ ۔گڈگورننس قائم کرنا ،معاشی بدحالی پر قابو پانااور خطے کے ملکوں میں باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنا اور توانائی کے مزید ذرائع تلاش کرنا وقت کی اہم ضروریات ہیں۔۔اگر قومی سطح پر ان مسئلوں پر قابو پا لیا جائے تو پاکستان کے تمام خارجہ اور داخلی مسائل خوش اسلوبی سے حل ہو سکتے ہیں۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں سابق چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل احسان الحق نے بھی مختصر مگر جامع انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
۲جون کو ’’ڈیلی صدائے چنار‘‘ اور’’ ڈیلی اوصاف‘‘ میں ،۳ جون کو ’’روزنامہ پاکستان‘‘ میں شائع ہوا۔
)مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں(