Newspaper Article 21/06/2018
یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بلوچستان کے بہت سے حلقوں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت کے پھیلائے ہوئے جال میں ہرگز نہیں آئیں گے بلکہ مستقبل میں اپنی ساری توانائیاں پاکستان خصوصاً بلوچستان کی حقیقی فلاح و بہبود کیلئے صرف کرنے کی بھرپور سعی کریں گے۔ اس پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے ملکِ عزیز کے اکثر حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ بات بڑی اطمینان بخش اور حوصلہ افزا قرار دی جانی چاہیے کہ ’’ڈاکٹر جمعہ خان مری‘‘ اور ان کے ساتھیوں کی بڑی تعداد نے کھل کر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ بھارت بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کی ہر طرح سے معاونت کر رہا ہے اور بھارت کے ایما پر یہ عناصر بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنی مذموم سازشوں کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے ہیں مگر اب بلوچ عوام کی اکثریت کو اس بات کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ ان بھارتی کے تانے بانے ’’را‘‘، این ڈی ایس اور کئی دیگر غیر ملکی قوتوں سے جا ملتے ہیں۔
ایسے میں ڈاکٹر جمعہ خان جیسی موثر شخصیات کی جانب سے بھارتی عزائم کا پردہ چاک کیا جانا ، انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت ہے جس کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ بھارتی حکمران گذشتہ دو ڈھائی برس سے ’’سی پیک‘‘ کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اور وہ برملا اس یہ کہتے رہتے ہیں کہ سی پیک کو نقصان پہنچانا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک حالیہ اجلاس میں جس طرح مودی نے ڈھکے چھپے بلکہ کھلے الفاظ میں سی پیک کی بابت اپنی منفی سوچ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد تو ہندوستانی عزائم کی بابت کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں بچتی۔ لہذا پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کے سبھی انسان دوست حلقوں کو اس جانب خاطر خواہ ڈھنگ سے متوجہ ہونا چاہیے کہ بھارتی شر انگیزیوں سے ملک و قوم کو محفوظ بنانے کی کاوش ہر با شعور پاکستانی کا اولین فریضہ ہونا چاہیے اور یہ بات خاصی حد تک اطمینان بخش ہے کہ ملکی سلامتی کے تمام ادارے اس حوالے سے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ملک و قوم کے سبھی طبقات اپنے سیاسی مفادات سے بالا ہو کر اس ضمن میں اپنا مثبت کردار نبھائیں ۔
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں میں منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ نامی اس کی نام نہاد تنظیم جس طرح پاکستان کے خلاف ایک مخصوص پراپیگنڈے میں مصروف ہے ،اس صورتحال کے سد باب میں سبھی ملکی حلقوں کو مزید موثر کردار نبھانا چاہیے۔ ایسے میں ڈاکٹر جمعہ خان جیسی محب وطن شخصیات کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان،کراچی اور وطن عزیز کے دیگر حصوں میں بعض عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے جو بے سروپا زہریلے خیالات کی آبیاری کرنے کی مذموم روش پر عمل پیرا ہیں، ان کی بیخ کنی ٹھوس اور موثر ڈھنگ سے ہونی چاہیے اوراس کے لئے ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ’’را‘‘ نے اپنے ذیلی ادارے’’اے پبلی کیشن آف بیورو آف پولیٹیکل ریسرچ اینڈ انیلے سس‘‘ کے پلیٹ فارم سے پاکستان مخالف اور حقائق کو مسخ کرنے والی اشاعتوں کے ذریعے بھی زہریلے خیالات کے پرچار کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ یاد رہے کہ دہلی میں قائم یہ ادارہ ہمہ وقت پاکستان مخالف تحریریں اور بے سروپا بیانات جاری کر کے بھارتی عوام کو بھی گمراہ کرتے ہوئے حقائق سے برعکس تصویر پیش کر رہا ہے۔اس ضمن میں ایسی ایسی بھونڈی اور مکروہ کوششیں جاری ہیں جن کی مذمت کے لئے الفاظ ڈھونڈ پانا بھی خاصا دشوار ہے۔
مبصرین کے مطابق اسے بھارتی عوام کی بد قسمتی بلکہ بد بختی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی تمام توانائیاں پراپیگنڈے کے محاذ پر صرف کر رہا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے حقیقی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے تو اس خطے میں امن و سلامتی قائم کرنے کا دیرینہ خواب کسی حد تک تعبیر پا سکتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی رائے عامہ بھی اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے دانستہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس بابت اپنا اخلاقی اور انسانی کردار نبھانے کی جانب توجہ مبذول کریں گے۔
ایسے میں ڈاکٹر جمعہ خان جیسی موثر شخصیات کی جانب سے بھارتی عزائم کا پردہ چاک کیا جانا ، انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت ہے جس کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ بھارتی حکمران گذشتہ دو ڈھائی برس سے ’’سی پیک‘‘ کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اور وہ برملا اس یہ کہتے رہتے ہیں کہ سی پیک کو نقصان پہنچانا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک حالیہ اجلاس میں جس طرح مودی نے ڈھکے چھپے بلکہ کھلے الفاظ میں سی پیک کی بابت اپنی منفی سوچ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد تو ہندوستانی عزائم کی بابت کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں بچتی۔ لہذا پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کے سبھی انسان دوست حلقوں کو اس جانب خاطر خواہ ڈھنگ سے متوجہ ہونا چاہیے کہ بھارتی شر انگیزیوں سے ملک و قوم کو محفوظ بنانے کی کاوش ہر با شعور پاکستانی کا اولین فریضہ ہونا چاہیے اور یہ بات خاصی حد تک اطمینان بخش ہے کہ ملکی سلامتی کے تمام ادارے اس حوالے سے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ملک و قوم کے سبھی طبقات اپنے سیاسی مفادات سے بالا ہو کر اس ضمن میں اپنا مثبت کردار نبھائیں ۔
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں میں منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ نامی اس کی نام نہاد تنظیم جس طرح پاکستان کے خلاف ایک مخصوص پراپیگنڈے میں مصروف ہے ،اس صورتحال کے سد باب میں سبھی ملکی حلقوں کو مزید موثر کردار نبھانا چاہیے۔ ایسے میں ڈاکٹر جمعہ خان جیسی محب وطن شخصیات کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان،کراچی اور وطن عزیز کے دیگر حصوں میں بعض عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے جو بے سروپا زہریلے خیالات کی آبیاری کرنے کی مذموم روش پر عمل پیرا ہیں، ان کی بیخ کنی ٹھوس اور موثر ڈھنگ سے ہونی چاہیے اوراس کے لئے ایک مربوط لائحہ عمل ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ’’را‘‘ نے اپنے ذیلی ادارے’’اے پبلی کیشن آف بیورو آف پولیٹیکل ریسرچ اینڈ انیلے سس‘‘ کے پلیٹ فارم سے پاکستان مخالف اور حقائق کو مسخ کرنے والی اشاعتوں کے ذریعے بھی زہریلے خیالات کے پرچار کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ یاد رہے کہ دہلی میں قائم یہ ادارہ ہمہ وقت پاکستان مخالف تحریریں اور بے سروپا بیانات جاری کر کے بھارتی عوام کو بھی گمراہ کرتے ہوئے حقائق سے برعکس تصویر پیش کر رہا ہے۔اس ضمن میں ایسی ایسی بھونڈی اور مکروہ کوششیں جاری ہیں جن کی مذمت کے لئے الفاظ ڈھونڈ پانا بھی خاصا دشوار ہے۔
مبصرین کے مطابق اسے بھارتی عوام کی بد قسمتی بلکہ بد بختی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی تمام توانائیاں پراپیگنڈے کے محاذ پر صرف کر رہا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے حقیقی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے تو اس خطے میں امن و سلامتی قائم کرنے کا دیرینہ خواب کسی حد تک تعبیر پا سکتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی رائے عامہ بھی اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے دانستہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس بابت اپنا اخلاقی اور انسانی کردار نبھانے کی جانب توجہ مبذول کریں گے۔
پندرہ جون کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)