Skip to content Skip to footer

!بھارتی سازشیں ، ممبئی دہشتگردی اور ۔ ۔

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu
دس سال پہلے ممبئی میں دہشتگردی کا جو واقعہ پیش آیا ۔ وہ یقیناًاپنی نوعیت کی بدترین وارداتوں میں سے ایک تھی ۔ اور اس پر بجا طور پر وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں نے افسوس اور تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ مگر اس سارے معاملے کا یہ پہلو اپنے آپ میں خاصا عجیب اور تعجب خیز ہے کہ خود بھارت کے بہت سے دانشوروں نے گذشتہ 10 سالوں میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ بھارت میں ہونے والے اس واقعے کو اتنا سادہ قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ یہ ظاہری طور پر نظر آتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے بھارتی صوبے یعنی مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور ’’ کانگرس ‘‘ کے جنرل سیکرٹری ’’ دگ وجے سنگھ ‘‘ ایک سے زائد مرتبہ اس امر کا انکشاف کر چکے ہیں کہ ممبئی میں ہونے والے اس واقعے میں خود بھارت کی خفیہ ایجنسیاں ملوث تھیں تبھی تو اس سانحے میں مارے جانے والے ممبئی کے اینٹی ٹیرارسٹ سکواڈ ( اے ٹی ایس ) کے سربراہ ’’ ہیمنت کرکرے ‘‘ نے اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے ’’ مدھیہ پردیش ‘‘ کے سابق وزیر اعلیٰ ’’ دگ وجے سنگھ ‘‘ کو خصوصی فون کر کے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انھیں ڈر ہے کہ ہندو دہشتگرد اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے لوگ انھیں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ممبئی دہشتگردی کی کڑیاں ’’ را ‘‘ اور ’’ انڈین آئی بی ‘‘ سے ملتی ہیں ۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ’’ ہیمنت کرکرے ‘‘ کے اس انکشاف کے چند گھنٹوں کے اندر اندر کرکرے کو انتہائی پر اسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا اور ان کی موت کے بعد ان کی بُلٹ پروف جیکٹ بھی جائے واردات سے غائب پائی گئی ۔ اس حوالے سے ان کی اہلیہ ’’ کویتا کرکرے ‘‘ نے واضح الفاظ میں ’’ را ‘‘ کے کئی اعلیٰ افسروں کو ہیمنت کرکرے کے قتل میں ملوث قرار دیا مگر چونکہ بھارت کے خفیہ ادارے خود ان کی پشت پناہی کر رہے تھے لہذا اس خاتون کی کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی ۔ اگرچہ اس دوران اس خاتون نے بھارتی عدلیہ سمیت سبھی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر انھیں انصاف تو دور کی بات کسی نے ان کی بات سننا تک گوارا نہ کی ۔ اس معاملے کا یہ پہلو اپنے آپ میں بہت بڑا راز ہے کہ مودی کے بر سرِ اقتدار آنے کے محض چار مہینوں بعد یعنی 29 ستمبر 2014 کو کویتا کرکرے کی بھی پر اسرار انداز میں اچانک موت ہو گئی ۔ بھارتی میڈیا نے بظاہر ان کی اچانک موت کو ’’ برین ہیمبرج ‘‘ کا شاخسانہ قرار دیا مگر اکثر مبصرین متفق ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی سازش تھی مگر آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے طاقتور حلقوں نے تا حال حقیقت کو ظاہر نہیں ہونے دیا ۔
اس کے علاوہ سبھی جانتے ہیں کہ 17 برس پیشتر یعنی تیرہ دسمبر 2001 کو بھارت نے ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچا یا تھا جس میں مجموعی طور پر 14 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ غیر جانبدار مبصرین نے اس معاملے کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے کی سنگینی کے پیش نظر بھارت سرکار نے اس موقع کو غنیمت جانا اور پوری کوشش کی کہ چونکہ پوری دنیا کی توجہ نائن الیون کے واقعے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء خصوصاً افغانستان پر مرکوز ہو چکی ہے لہذا ایسے میں بھارتی حکمرانوں نے بھی اس بہتی گنگا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور ’’را ‘‘نے فوری طور پر تیرہ دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملے کا ناٹک رچا ڈالا جس کے فوراً بعد اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور ان کے ہمنواؤں نے پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور دہلی نے پاکستان کی سرحد پر دس لاکھ سے زائد فوج لا کھڑی کی جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھی خاطرخواہ دفاعی اقدامات اٹھائے اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پوری قوم اپنے تمام اختلافات سے اوپر اٹھ کر سیسہ پلائی دیوار کی مانندایک ہو گئی ۔ یہ صورتحال پورے دس ماہ تک جاری رہی، اس دوران دہلی سرکار نے وطن عزیز کے خلاف تند و تیز الزامات لگاتے ہوئے اپنے میڈیا کے ذریعے ایک ہیجان پیدا کیا جس کا تصور بھی کوئی مہذب انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔
اسی تناظر میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ خود بھارت کے بعض دیگر ذرائع بھی وقتاً فوقتاً انکشاف کرتے رہے ہیں کہ بھارت کے اندر کئی ایسی سازشیں پنپتی رہی ہیں جنہیں خود ہندوستانی اداروں کی سر پرستی حاصل رہی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے ۔ بہر حال توقع کی جانی چاہیے کہ دنیا بھر کے انصاف پسند حلقے پورے بھارتی معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتی ہندو انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اپنائیں گے تا کہ جنوبی ایشیاء کا امن کسی نئی آزمائش سے دوچار نہ ہو۔
مبصرین کے مطابق غیر جانبدار حلقے مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو دہشتگردی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔ بھارت حکمرانوں کے جنگی عزائم انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ دہلی سرکار کی ریشہ دوانیوں کا عالم یہ ہے کہ وہ خود اپنی شر پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے مختلف واقعات کراتے اور پھر اس کی ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر ڈالنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ سبھی جانتے ہیں کہ گیارہ سال کا وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت ، میجر اپادھیا اور اسیما نند جیسے مرکزی مجرموں کو ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت انسانی حقوق کے احترام کی بات کرے تو کیا کہا جا سکتا ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ 11 سال پہلے 18 اور 19 فرروی 2007کی رات بھارتی صوبے ہریانہ سے گزررہی سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئی دہشتگردی میں 80سے زائد پاکستانی زندہ جلا دیئے گئے جبکہ 150سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔ اس سانحے کے وقوع پذیر کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنی روایت کے مطابق ، اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی مگر فطرت کا قانون ہے کہ سچ کو ہر حال میں ظاہر ہونا ہوتا ہے اس لیے بعد میں خود ہندوستانی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ اس جرم میں انڈین فوج کا حاضر سروس کرنل اور آر ایس ایس براہ راست ملوث تھی ۔ کرنل پروہت، میجر اپادھیا، سوامی اسیم آنند،لوکیش شرما،سند یپ ڈانگے،کمل چوہان کے خلاف یہ مقدمے ابھی بھی جاری ہیں۔اس کے ایک ملزم سنیل جوشی کو گرفتاری کے بعد پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا ۔ مبصرین کے مطابق سنیل جوشی کو اس لیے قتل کر دیا گیا تا کہ سانحے میں ملوث دیگر افراد کے نام نہ بتا سکے۔10فروری 2014کے ہندی اخبار بھاسکر میں نیوز رپورٹ شائع ہوئی جس میں ’’کارواں‘‘ میگزین میں سوامی آنند کے اس انٹرویو کی تفصیل شامل تھی جس میں اس نے خاتون صحافی ’’لینا گیتا رگھوُناتھ‘‘کو فخریہ بتایا کہ اس جرم میں آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ ’’موہن بھاگوت‘‘ اور آر ایس ایس کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن اندریش کمار بھی شامل تھے ۔سوامی نے بتایا کہ آر ایس ایس مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات کونشانہ بنا کر ہراساں کر رہی ہے ۔
اس کے علاوہ 12 فروری 2018 کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھارتی صوبے بہار کے شہر مظفر پور میں آر ایس ایس کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے کہہ چکے ہیں کہ ’’ بھارتی فوج سے زیادہ ڈسپلن آر ایس ایس میں ہے، بھارت کی فوج کو ایک جوان تیار کرنے میں 6 سے 7 مہینے لگ جاتے ہیں مگر اگر آر ایس ایس ٹھان لے تو صرف تین دن سے ایک ہفتے کے اندر ’’سویم سیوکوں‘‘ کی ایسی فوج تیار ہو سکتی ہے جو کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ اور یہ کام کرنے کی صلاحیت صرف آر ایس ایس کے پاس ہے‘‘ ۔ سنگھ پریوار کے سربراہ کے اس بیان پر خود بھارت کے کئی تجزیہ نگاروں نے افسوس ظاہر کیا کہ اگر آر ایس ایس اور بھارتی حکمرانوں کے یہی لچھن چلتے رہے تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ مستقبل قریب میں بھارت کے لئے ایسی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں جن کا حل کسی کے پاس بھی نہیں ہو گا۔
یہاں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی حکمران طبقات کی فسطائی ذہنیت کا اس کا بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ افضل گرو کو 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے مبینہ حملے میں ملوث ہونے کے نام نہاد الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔طویل عدالتی کاروائی کے دوران ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی بھارتی حکومت پیش نہ کر سکی جس کا اعتراف خود بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان الفاظ کے ذریعے کیا’’اگرچہ افضل گرو کے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگر بھارتی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات کی تسکین کی خاطر انھیں پھانسی دینا ضروری ہے ‘‘
مبصرین کے مطابق دنیا کی جدید عدالتی تاریخ میں ایسی بے انصافی کی مثال شائد ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے ۔جب کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک جانب اس امر کا اعتراف کر رہی ہو کہ ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں مگر دوسری طرف کسی فرد یا گروہ کی نام نہاد تسکین کی خاطر اس بے گناہ شخص سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جائے تو ایسے میں اس سزائے موت کو عدالتی قتل کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسا شائد برہمنی انصاف کے تقاضوں کے تحت ہی ممکن ہے وگرنہ کوئی مہذب اور نارمل انسانی معاشرہ شائد ایسی بے انصافی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
اٹھارہ نومبر 2018 کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements