Newspaper Article 26/08/2014
ہر برس کی مانند ۱۵ اگست ۲۰۱۴ کو مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں بھارتی یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا گیا ۔کشمیریوں کی اکثریت نے اپنے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر گویا دنیا کو ایک بار پھر پیغام دیا کہ بھارت کی جاری ریاستی دہشتگردی کے باوجود کشمیری قوم ہندوستان کا تسلط قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نے لال قلعہ سے اپنے یومِ آزادی کے خطاب میں بھارت کے ہمسایہ ملکوں کو پیغام دیا کہ خطے میں غربت و افلاس کے خاتمے کے لئے علاقائی سطح پر اقتصادی تعاون کو فروغ دیں۔
دوسری طرف ۱۸ اگست کو ہندوستان کی سیکرٹری خارجہ ’’سجھاتا سنگھ‘‘ کا مجوزہ دورہ اسلام آباد منسوخ کر دیا گیا۔مو صوفہ اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مذاکرات کی غرض سے طے شدہ سیڈول کے مطابق ۲۵ اگست کو پاکستان آنے والی تھیں ۔بھارت سرکار نے اس ضمن میں یہ عذر تراشا کہ ۱۸ اگست کو بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشنر ’’عبدالباسط‘‘ نے مقبوضہ ریاست کی جماعت’’ جموں کشمیر فریڈم پارٹی‘‘ کے سربراہ ’’شبیر احمد شاہ‘‘ سے ملاقات کی ہے۔دہلی کے بقول یہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے لہذا بھارت نے اظہارِ ناراضگی کے طور پر اپنی سیکرٹری خارجہ کا مجوزہ دورہ پاکستان منسوخ کر دیا ہے۔یاد رہے کہ حکومتِ پاکستان نے اس حوالے سے جرات مندانہ موقف اختیار کیا اور ہائی کمیشنر ’’عبدالباسط‘‘ نے اس بھارتی فیصلے کے دو دن بعد ۲۰ اگست کو کشمیری قائدین ’’سید علی گیلانی‘‘،’’میر واعظ‘‘ اور’’ یاسین ملک ‘‘کو پاک ہائی کمیشن میں مدعو کیا اور ان سے تفصیلی مذاکرات کیے جس کے بعد ان قائدین نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ تنازعہ کشمیر میں پاکستان ،ہندوستان اور کشمیری اہم ترین فریق ہیں لہذا پاکستانی قیادت سے ملاقات کشمیریوں کا حق ہی نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری بھی ہے ۔۲۲ اگست کو دہلی سے واپسی پر علی گیلانی کو سری نگر ایئر پورٹ سے گرفتار کر کے ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا جس کے ردعمل پر پورے کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کی شدید لہر دوڑ گئی۔
سفارتی مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے رائے ظاہر کی ہے کہ اگرچہ پاکستان کی تمام حکومتیں بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کے لئے کوشاں رہی ہیں مگر موجودہ پاکستانِ وزیرِ اعظم نے تو گذشتہ برس جون ۲۰۱۳ میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی غیر معمولی کوشش کی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ۵ جون ۲۰۱۳ کو اپنے حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لئے اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم ’’منموہن سنگھ‘‘ کو خاص طور پر مدعو کیا تھا مگر وہ نہ آئے۔
ستمبر ۲۰۱۳ کے آخری ہفتے میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سائڈ لائن ملاقاتوں میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات ہوئی جس میں منموہن کو دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی۔
دسمبر ۲۰۱۳ میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور خارجہ پالیسی امور کے لئے وزیرِ اعظم کے مشیرِ اعلیٰ’’سرتاج عزیز ‘‘ نے دورہ بھارت کے دوران بھارتی قیادت سے باہمی تعلقات کی بہتری کے ضمن میں خصوصی ملاقاتیں کیں۔علاوہ ازیں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے بھی باہمی تعلقات کی بہتری کی خاطر جنوری ۲۰۱۴ میں بھارت کا دورہ کیا۔
مئی ۲۰۱۴ میں نئی بھارتی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امن دوست حلقوں کو توقع پیدا ہوئے تھی کہ شاید دونوں ملکوں کے تعلقات میں خاطر خواہ بہتری آئے ۔چونکہ انتخابی مہم کے دوران مودی ایک سے زائد بار پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں واجپائی کے تقشِ قدم پر چلنے کی بات کر چکے تھے۔اپنے حلفِ وفاداری کی تقریب میں مودی نے پاک وزیرِ اعظم کو شرکت کی دعوت دی ۔پاکستانی عوام و خواص کے اکثر حلقوں کو اس بابت اگرچہ خاصے تحفظات تھے مگر ۲۶ مئی کو نواز شریف دہلی گئے اور ۲۷ مئی کو دونوں وزرائے اعظم نے بظاہر خوشگوار ماحول میں بات کی ۔
۱۱ اگست ۲۰۱۴ کو بھارتی وزیرِ داخلہ ’’راج ناتھ سنگھ ‘‘ نے پالیمنٹ کے ایوانِ بالا ’’راجیہ سبھا‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ ہندوستان کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے’’ انسانیت ‘‘کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قوم اٹھانے کو آمادہ ہے‘‘
یاد رہے کہ ۲۰۰۳ میں واجپائی نے یہ الفاظ کہے تھے اور دراصل راج ناتھ سنگھ نے واجپائی کے جملے کو ہی دہرایا۔مگر بھارتی حکمرانوں کے روایتی دورِ معیار اس موقع پر بھی سامنے آئے جب راج ناتھ نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ ریاست سے فی الحال ’’آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘‘ ’’اے ایف ایس پی اے‘‘ ختم نہیں کیا جا رہا کیوں کہ اس بابت اتفاق رائے نہیں ہے۔مبصرین کے مطابق سبھی جانتے ہیں کہ یہ کالے قوانین انسانیت کے ادنیٰ ترین اصولوں اور معیار کے بھی خلاف ہیں۔مگر ایک جانب بھارت انسانیت کے دائروں کے اندر رہنے کی بات کرتا ہے اور ددوسری جانب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ مزید بڑھا رہا ہے ۔سیک علی گیلانی نے یقیناً سہی کہا ہے کہ اگر دہلی سرکار کو انسانیت کے دائرے کا ذرا سا بھی لحاظ ہے تو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق انھیں اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرنے کے حق دیا جائے۔
بہرکیف ۱۲ اگست کو مودی نے ممقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں پاکستان پر ’’پراکسی وار‘‘ کے جو الزامات لگائے اس سے ماحول خاصا مکدر ہوا۔اس سے پہلے ۳۱ جولائی کو نئے بھارتی آرمی چیف ’’جنرل دل باغ سنگھ سوہاگ‘‘ نے منصب سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں پاکستان کی بابت انتہائی توہین آمیز باتیں کیں۔ ۱۶ اگست کو بھارتی بحریہ کے بیڑے میں نئے تباہ کن جہاز ’’آئی این کولکتہ‘‘ کی شمولیت کے موقع پر مودی نے سبھی ہمسایوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور اسلحہ جمع کرنے کی خواہش کے اعادہ کیا اور پھر ۱۸ اگست کو سیکرٹری خارجہ کا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا گیا۔مبصرین کے مطابق دہلی کے حکمرانوں کے قول و فعل کا یہ تضاد علاقائی اور عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
امید کی جانی چاہیے کہ دہلی سرکار اپنی اس منفی روش کو ترک کے کے مثبت طرزِ اعمل اپنائے گی۔
اگست 25 کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)