Newspaper Article 24/04/2017
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ چینی حکام کی جانب سے اروناچل پردیش کے چھ مقامات کو نئے معیاری نام دینا قانونی اور مناسب اقدام ہے۔ ترجمان نے کہا کہ چین، بھارت اور چین کے درمیان مشرقی حصے سے متعلق ایک واضح اور مستقل موقف رکھتا ہے، جغرافیائی لحاظ سے چینی علاقوں کے نام رکھنے کے مجاز ادارے نے یہ نام تمام متعلقہ قواعد و ضوابط اور قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھے ہیں اور یہ اقدام انتہائی مناسب اور قانون کے عین مطابق ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ جنوبی تبت ( مقبوضہ ارونا چل پردیش ) بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے ۔یہ در اصل جنوبی تبت ہے ۔ یہ حقیقت میں وہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے کشمیر کی مانند نا جائز تسلط جما رکھا ہے ۔ اِٹا نگر مقبوضہ ارونا چل پردیش کا دارالحکومت ہے ۔ یاد رہے کہ مقبوضہ ارونا چل پردیش کا رقبہ 32,333 مربع میل ہے ۔ اس مقبوضہ علاقے کی آبادی 2011 کے بھارتی اعداد و شمار کے مطابق 13 لاکھ 82 ہزار 6 سو گیارہ ہے ۔
یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ دہلی سرکار ہمیشہ سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے تبھی تو ایک طرف نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے بلکہ ان میں اچھی خاصی کشیدگی پائی جاتی رہی ہے کیونکہ 1988 اور 1989 میں ہندوستان نے کئی ماہ تک نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کیے رکھی اور سالِ گذشتہ میں بھی جب نیپال میں سیکولر اصولوں پر مبنی آئین اپنے یہاں لاگو کیا تو بھارت اس کی سخت مخالفت کی اور یہ سلسلہ ہنوذ جاری و ساری ہے ۔
اسی طرح سکم جیسی چھوٹی ہمالیائی ریاست کو بھی دہلی نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑپ کر لیا تھا اور یہ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ سری لنکا کے خلاف یہ بھارتی سازشیں تقریباً ربع صدی تک جاری رہیں اور اس ضمن میں ’’ را ‘‘ کی شہہ پر ’’ تامل ٹائیگرز ‘‘ نے عرصہ دراز تک سری لنکا میں جو سازشیں اور تخریب کاری انجام دی اسی کے نتیجے میں ایک مرحلے پر سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں بھی بھارت کی جانب سے سری لنکا کے پانیوں میں آئے روز جو در اندازی جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
علاوہ ازیں مالدیپ میں بغاوت کا ڈرامہ رچا کر دہلی نے جو کچھ کیا ، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ اور پھر ’’ را ‘‘ اور بھارتی سیدھی مداخلت سے جس طور پاکستان کے مشرقی بازو کو دو لخت کیا گیا ، اس کا اعتراف ایک سے زائد مرتبہ خود مودی اور دیگر بھارتی حکمران کر چکے ہیں ۔
اپنی اسی مکروہ روش کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت نے چین کے خلاف سازشوں اور پراپیگنڈے کا نیا سلسلہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت نے چین کے علاقے ارونا پردیش پر اپنا نا جائز تسلط جما رکھا ہے اور بھارت کی جانب سے ’’ دلائی لامہ ‘‘ کو خصوصی طور پر’’ جنوبی تبت ‘‘ کی دس روزہ یاترا پر بھیجا گیا ۔ اس دوران دہلی کے حکمران ٹولے نے خصوصاً ’’ کرن رجیجو ‘‘ اور ارونا چل پردیش کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ’’ پیما کھانڈو ‘‘ نے چین کے خلاف زہر افشانیوں کا سلسلہ جاری رکھااور چین کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کرتے ہوئے اس حوالے سے انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی ۔ تبھی تو چین کے سرکاری ٹی وی چینل پر ’’ انڈیا ، یو وِل پے فار اِٹ ‘‘ جیسے واشگاف الفاظ میں بھارت کو تنبیہ کی گئی کہ وہ چین کے خلاف جاری اپنی اشتعال انگیز روش سے باز رہے ورنہ اس کے سنگین نتائج اسے بھگتنا پڑیں گے ۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ آزادی اور حق خود ارادیت کا حصول کشمیریوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور کشمیری نوجوانوں کے اندر اس وقت جو اشتعال پایا جاتا ہے وہ بھارتی رہنماؤں کی ضد، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہی کا نتیجہ ہے۔
بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس کے حل کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائیں گے اور بھارت کو اس کی روش سے باز رکھنے کی سعی کی جائے گی وگرنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ جنوبی تبت ( مقبوضہ ارونا چل پردیش ) بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے ۔یہ در اصل جنوبی تبت ہے ۔ یہ حقیقت میں وہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے کشمیر کی مانند نا جائز تسلط جما رکھا ہے ۔ اِٹا نگر مقبوضہ ارونا چل پردیش کا دارالحکومت ہے ۔ یاد رہے کہ مقبوضہ ارونا چل پردیش کا رقبہ 32,333 مربع میل ہے ۔ اس مقبوضہ علاقے کی آبادی 2011 کے بھارتی اعداد و شمار کے مطابق 13 لاکھ 82 ہزار 6 سو گیارہ ہے ۔
یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ دہلی سرکار ہمیشہ سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے تبھی تو ایک طرف نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے بلکہ ان میں اچھی خاصی کشیدگی پائی جاتی رہی ہے کیونکہ 1988 اور 1989 میں ہندوستان نے کئی ماہ تک نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کیے رکھی اور سالِ گذشتہ میں بھی جب نیپال میں سیکولر اصولوں پر مبنی آئین اپنے یہاں لاگو کیا تو بھارت اس کی سخت مخالفت کی اور یہ سلسلہ ہنوذ جاری و ساری ہے ۔
اسی طرح سکم جیسی چھوٹی ہمالیائی ریاست کو بھی دہلی نے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑپ کر لیا تھا اور یہ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ سری لنکا کے خلاف یہ بھارتی سازشیں تقریباً ربع صدی تک جاری رہیں اور اس ضمن میں ’’ را ‘‘ کی شہہ پر ’’ تامل ٹائیگرز ‘‘ نے عرصہ دراز تک سری لنکا میں جو سازشیں اور تخریب کاری انجام دی اسی کے نتیجے میں ایک مرحلے پر سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں بھی بھارت کی جانب سے سری لنکا کے پانیوں میں آئے روز جو در اندازی جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
علاوہ ازیں مالدیپ میں بغاوت کا ڈرامہ رچا کر دہلی نے جو کچھ کیا ، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ اور پھر ’’ را ‘‘ اور بھارتی سیدھی مداخلت سے جس طور پاکستان کے مشرقی بازو کو دو لخت کیا گیا ، اس کا اعتراف ایک سے زائد مرتبہ خود مودی اور دیگر بھارتی حکمران کر چکے ہیں ۔
اپنی اسی مکروہ روش کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت نے چین کے خلاف سازشوں اور پراپیگنڈے کا نیا سلسلہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت نے چین کے علاقے ارونا پردیش پر اپنا نا جائز تسلط جما رکھا ہے اور بھارت کی جانب سے ’’ دلائی لامہ ‘‘ کو خصوصی طور پر’’ جنوبی تبت ‘‘ کی دس روزہ یاترا پر بھیجا گیا ۔ اس دوران دہلی کے حکمران ٹولے نے خصوصاً ’’ کرن رجیجو ‘‘ اور ارونا چل پردیش کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ’’ پیما کھانڈو ‘‘ نے چین کے خلاف زہر افشانیوں کا سلسلہ جاری رکھااور چین کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کرتے ہوئے اس حوالے سے انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی ۔ تبھی تو چین کے سرکاری ٹی وی چینل پر ’’ انڈیا ، یو وِل پے فار اِٹ ‘‘ جیسے واشگاف الفاظ میں بھارت کو تنبیہ کی گئی کہ وہ چین کے خلاف جاری اپنی اشتعال انگیز روش سے باز رہے ورنہ اس کے سنگین نتائج اسے بھگتنا پڑیں گے ۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہا کہ آزادی اور حق خود ارادیت کا حصول کشمیریوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور کشمیری نوجوانوں کے اندر اس وقت جو اشتعال پایا جاتا ہے وہ بھارتی رہنماؤں کی ضد، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہی کا نتیجہ ہے۔
بہر حال امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس کے حل کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائیں گے اور بھارت کو اس کی روش سے باز رکھنے کی سعی کی جائے گی وگرنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
چوبیس اپریل کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )