Newspaper Article 17/07/2018
اسے کسی حد تک ستم ظریفی ہی کہا جانا چاہیے کہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سارا دارومدار امریکہ ، چین ،روس اور تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک پر ہے ۔ علاوہ ازیں پاکستان کے تعلقات بھارت کے ساتھ تنازعہ کشمیر کے سبب انتہائی دگردوں ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے دوسرے ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جا رہی حالانکہ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات پاکستان کی تجارتی اور اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔ ایسے میں یقیناًضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز کے عوامی اور پالیسی ساز حلقوں پر یورپی یونین کی اہمیت کو زیادہ موثر ڈھنگ سے اجاگر کیا جائے، خصوصاً انسانی حقوق کی پامالیوں کے ضمن میں بھارت نے جو معاندانہ رویہ اپنا رکھا ہے اس کے پیشِ نظر تو یہ امر اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ پاکستان اپنے مقدمہ اور بھارت کی انسانی حقوق کی پامالیوں کو عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کر پائے۔
اسی ضمن میں کچھ روز قبل اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ’’یورپی یونین اور پاکستان کے تعلقات: مشکلات اور مواقع ‘‘کے عنوان سے ایک خصوصی گیسٹ لیکچر کا انعقاد کیا گیا جس میں یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر جین فرانکوائس کوتین نے اظہار خیال کرتے کہا کہ پاکستان نے عالمی دہشتگردی کے خاتمے میں جس طرح ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے اس کا ادراک کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک کو یہ پیغام پہنچایا جانا چاہیے کہ اس موثر ترین اقتصادی فورم سے پاکستان تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اور افغان مہاجرین کے لیے قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان انتہا پسندی اور دہشتگردی سے جنگ لڑ رہا ہے،دہشتگردی عالمی برادری اور یورپی یونین کے لئے بھی چیلنج ہے۔ پاکستان نے کسی دوسرے ملک سے زیادہ دہشتگردی کو جھیلا ہے اور پاکستان اور یورپی یونین کو باہم مل کر اندرونی اور بیرونی استحکام کے لئے کاوشیں کرنا چاہیں۔ انھوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس سے پاکستان کومعاشی طورپر فائدہ ہورہاہے۔ تقریب سے بھارت میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر اوراسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اپری) کے سربراہ عبد الباسط نے بھی خطاب کیا۔یورپی یونین کے سفیر جین فرانکوائس کوئین نے کہا کہ پاکستان اور یورپ کے تعلقات مزید بہتر کرنے کیلئے گذشتہ 18 ماہ سے ایک نیا انگیجمنٹ پلان تقریباً تیار ہو چکا ہے جو پاکستان کے آئندہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کے ساتھ دستخط کیا جائے گا۔ یورپی یونین کا بنیادی مقصد خطہ میں امن لانا ہے جس میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس سے سبھی پڑوسی ممالک کو بھی فائدہ ہوا ہے، یورپی یونین کو مختلف چیلنجز کا سامناہے علاوہ ازیں دوسرا بڑا مسئلہ مہاجرین ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین دنیا میں امن کے لیے فوجی مشن پر کام کر رہا ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ مختلف امور پر کام کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگلے ماہ ایک اعلیٰ سطح کاپاکستانی وفد یورپی یونین کا دورہ کرے گا ۔ جی ایس پی پلس کا درجہ دینے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔ یورپی ممالک سی پیک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس حوالے سے مزید آگاہی پیدا کرنا ہو گی ۔ کیونکہ پاکستان میں امن وامان ، سلامتی اور استحکام ہوگا تو سرمایہ کاری آئے گی ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن ممکن ہے جس طرح جرمنی اور یورپی ممالک میں امن قائم ہوا جس کا ایک دور میں تصور بھی محال تھا۔
انھوں نے یورپی یونین کے مسائل بیان کرتے کہا کہ ہمارے لیے مہاجرین کا مسئلہ ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے اور دنیا میں یہ دوسرا غیر قانونی کاروبار ہے جو مسلسل ہو ر ہا ہے اور اس کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ افغان مہاجرین صرف اس صورت واپس جا سکتے ہیں جب وہاں امن ہو جائے۔ افغانستان ان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ہے جس طرح پاکستان نے مہاجرین کی مدد کی ہے اس کو انتہائی تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امبیسڈر (ر) عبد الباسط نے کہا کہ یورپی یونین انسانی حقوق پر بہت زیادہ زور دیتا ہے ۔پاکستان نے بلاشبہ دہشتگردی کے خلاف لازوال قربانیاں دی ہیں مگر پاکستان یورپی یونین کے تجربات سے سیکھ سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق سبھی جانتے ہیں کہ یورپی یونین 28 ممالک پر مشتمل غالباً سب سے بڑا اقتصادی فورم ہے جس میں آسٹریا، بیلجیئم، بلغاریہ، کروشیا، قبرس، چیک ری پبلک، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، ہنگری، آئرلینڈ، اٹلی، لاٹویا، لیتھوانیا، لکسمبرگ، مالٹا، نیدرلینڈ، پولینڈ، پرتگال و دیگر شامل ہیں۔
اس حوالے سے یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین کے سفیر جین فرانکوائس کوتین نے پاکستان کو درپیش جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے وہ یقیناًاپنی جگہ پر صحیح ہیں اور اس بابت اپری کے سربراہ عبدالباسط کی یہ بات یقیناًخاصی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے اندر بھارت ، اسرائیل، امریکہ، چین اور کئی دیگر اسلامی و غیر اسلامی ملکوں کے ضمن میں تو مختلف پہلوؤں سے اکثر و بیشتر جزوی یا تفصیل سے لکھا جاتا ہے اور بات کی جاتی ہے، مگر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’یورپی یونین‘‘ کو ہمارا میڈیا اس طرح خاطر خواہ ڈھنگ سے کور نہیں کرتا جس کا وہ متقاضی ہے، کیونکہ یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یورپی یونین ایک بہت بڑی اقتصادی قوت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کی پسند اور نہ پسند کو خود امریکہ بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ مگر اس ضمن میں تاحال وطن عزیز میں موثر طریقے سے توجہ نہیں دی جا رہی۔ بہر کیف توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے سبھی پالیسی ساز حلقے اس ضمن میں ٹھوس اور جامع حکمت عملی مرتب کریں گے۔
اسی ضمن میں کچھ روز قبل اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ’’یورپی یونین اور پاکستان کے تعلقات: مشکلات اور مواقع ‘‘کے عنوان سے ایک خصوصی گیسٹ لیکچر کا انعقاد کیا گیا جس میں یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر جین فرانکوائس کوتین نے اظہار خیال کرتے کہا کہ پاکستان نے عالمی دہشتگردی کے خاتمے میں جس طرح ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے اس کا ادراک کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ یورپی یونین کے رکن ممالک کو یہ پیغام پہنچایا جانا چاہیے کہ اس موثر ترین اقتصادی فورم سے پاکستان تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اور افغان مہاجرین کے لیے قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان انتہا پسندی اور دہشتگردی سے جنگ لڑ رہا ہے،دہشتگردی عالمی برادری اور یورپی یونین کے لئے بھی چیلنج ہے۔ پاکستان نے کسی دوسرے ملک سے زیادہ دہشتگردی کو جھیلا ہے اور پاکستان اور یورپی یونین کو باہم مل کر اندرونی اور بیرونی استحکام کے لئے کاوشیں کرنا چاہیں۔ انھوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس سے پاکستان کومعاشی طورپر فائدہ ہورہاہے۔ تقریب سے بھارت میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر اوراسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اپری) کے سربراہ عبد الباسط نے بھی خطاب کیا۔یورپی یونین کے سفیر جین فرانکوائس کوئین نے کہا کہ پاکستان اور یورپ کے تعلقات مزید بہتر کرنے کیلئے گذشتہ 18 ماہ سے ایک نیا انگیجمنٹ پلان تقریباً تیار ہو چکا ہے جو پاکستان کے آئندہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کے ساتھ دستخط کیا جائے گا۔ یورپی یونین کا بنیادی مقصد خطہ میں امن لانا ہے جس میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس سے سبھی پڑوسی ممالک کو بھی فائدہ ہوا ہے، یورپی یونین کو مختلف چیلنجز کا سامناہے علاوہ ازیں دوسرا بڑا مسئلہ مہاجرین ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین دنیا میں امن کے لیے فوجی مشن پر کام کر رہا ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ مختلف امور پر کام کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگلے ماہ ایک اعلیٰ سطح کاپاکستانی وفد یورپی یونین کا دورہ کرے گا ۔ جی ایس پی پلس کا درجہ دینے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔ یورپی ممالک سی پیک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس حوالے سے مزید آگاہی پیدا کرنا ہو گی ۔ کیونکہ پاکستان میں امن وامان ، سلامتی اور استحکام ہوگا تو سرمایہ کاری آئے گی ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن ممکن ہے جس طرح جرمنی اور یورپی ممالک میں امن قائم ہوا جس کا ایک دور میں تصور بھی محال تھا۔
انھوں نے یورپی یونین کے مسائل بیان کرتے کہا کہ ہمارے لیے مہاجرین کا مسئلہ ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے اور دنیا میں یہ دوسرا غیر قانونی کاروبار ہے جو مسلسل ہو ر ہا ہے اور اس کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ افغان مہاجرین صرف اس صورت واپس جا سکتے ہیں جب وہاں امن ہو جائے۔ افغانستان ان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ہے جس طرح پاکستان نے مہاجرین کی مدد کی ہے اس کو انتہائی تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امبیسڈر (ر) عبد الباسط نے کہا کہ یورپی یونین انسانی حقوق پر بہت زیادہ زور دیتا ہے ۔پاکستان نے بلاشبہ دہشتگردی کے خلاف لازوال قربانیاں دی ہیں مگر پاکستان یورپی یونین کے تجربات سے سیکھ سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق سبھی جانتے ہیں کہ یورپی یونین 28 ممالک پر مشتمل غالباً سب سے بڑا اقتصادی فورم ہے جس میں آسٹریا، بیلجیئم، بلغاریہ، کروشیا، قبرس، چیک ری پبلک، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، ہنگری، آئرلینڈ، اٹلی، لاٹویا، لیتھوانیا، لکسمبرگ، مالٹا، نیدرلینڈ، پولینڈ، پرتگال و دیگر شامل ہیں۔
اس حوالے سے یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین کے سفیر جین فرانکوائس کوتین نے پاکستان کو درپیش جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے وہ یقیناًاپنی جگہ پر صحیح ہیں اور اس بابت اپری کے سربراہ عبدالباسط کی یہ بات یقیناًخاصی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان کے اندر بھارت ، اسرائیل، امریکہ، چین اور کئی دیگر اسلامی و غیر اسلامی ملکوں کے ضمن میں تو مختلف پہلوؤں سے اکثر و بیشتر جزوی یا تفصیل سے لکھا جاتا ہے اور بات کی جاتی ہے، مگر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’یورپی یونین‘‘ کو ہمارا میڈیا اس طرح خاطر خواہ ڈھنگ سے کور نہیں کرتا جس کا وہ متقاضی ہے، کیونکہ یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یورپی یونین ایک بہت بڑی اقتصادی قوت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کی پسند اور نہ پسند کو خود امریکہ بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ مگر اس ضمن میں تاحال وطن عزیز میں موثر طریقے سے توجہ نہیں دی جا رہی۔ بہر کیف توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے سبھی پالیسی ساز حلقے اس ضمن میں ٹھوس اور جامع حکمت عملی مرتب کریں گے۔
گیارہ جولائی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسر چ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دارنہیں)