Newspaper Article 18/04/2018
ہفتہ رواں میں مودی نے کہا ہے کہ بھارت سارک سربراہ کانفرنس میں حصہ نہیں لے گا۔ اس موقع پہ مودی نے پاکستان کے خلاف بہت سے بے بنیاد الزمات بھی دھرے اور اپنی دیرینہ روش کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ ماہرین کے مطابق بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے خلاف ہمیشہ حقائق کو مسخ کر کے اور محض پراپیگنڈے کی بنیاد پر ایک مہم جاری رکھی ہے اور اس بارے میں غالباً ہر ذی شعور حقیقت اور فسانے کے درمیان فرق کو بخوبی محسوس کر سکتا ہے، مگر اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اس ضمن میں تاحال کوئی موثر پاک بیانیہ ترتیب نہیں پایا جس کی کئی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس میں تو کئی شک نہیں کہ پاکستان کا دو لخت ہونا قومی تاریخ کا ایسا المیہ تھا جسے بجا طور پر سیاہ ترین ہی قرار دیا جا سکتا ہے، مگر یہ نوبت یہاں تک کیوں اور کس طرح پہنچی، اس کے محرکات و عوامل کو بھارت اور بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت استعمال کیا۔ اور اس کی تاریخی حیثیت مسخ کر کے ’’من چاہے‘‘ نتائج اخذ کرنے کی ہر ممکن سعی کی ۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان کے دولخت ہونے میں جہاں غیروں کی سازشوں اور مکروہ ہتھکنڈوں کا کردار تھا وہیں اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کابھی بہرصورت کسی حد تک عمل دخل تھا گویا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے،مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
تم سے بے جا ہے مجھے ،اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہِ خوبیِ تقدیر بھی تھا
مگر اسے بھی ایک قومی المیہ ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ اتنے بڑے سانحے کو بھارت اور عوامی لیگ ایک خاص رنگ دینے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتی ہیں، لیکن وطن عزیز کے سبھی حلقوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی موثر اور ٹھوس ’’قومی بیانیہ‘‘ تاحال سامنے نہیں آیا جس کا فائدہ بھارت مسلسل اٹھا رہا ہے۔
حالانکہ کسے علم نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو محض الگ سے یا خلا میں دیکھا نہیں جا سکتا بلکہ اس کے پس پشت بہت سے تاریخی عوامل و محرکات تھے اور واقعات و حوادث کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی سرکار نے سکول کے نصاب میں تبدیلی کر کے 1952 کے بعد کی لسانی تحریک اور 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کو ایک خاص انداز میں پیش کرتے ہوئے اسے نام نہاد ’’لبریشن وار‘‘ (آزادی کی جنگ) قرار دیا ۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں CSS کے امتحان میں بھی 100 نمبروں کا پیپر ’’ لبریشن وار ‘‘ کی تاریخ پر رکھا جا چکا ہے جس کو حل کرنا لازمی قرار دے رکھا ہے تا کہ اس صورتحال کو بنگلہ دیش اور بھارت کی داخلی سیاست میں بھی استعمال کیا جا سکے۔
اس پس منظرمیں ماہرین نے کہا ہے کہ اس سارے معاملے کے پس پشت دراصل حسینہ سرکار اور بھارتی حکمرانوں ( بھلے ہی کانگرس ہو یا بی جے پی) کا مخصوص ایجنڈا ہے جس کے تحت سابقہ مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے نام نہاد مظالم کے فسانے اور نظریہ پاکستان کو ضعف پہنچانا ہے۔تبھی تو عوامی لیگی حکومت اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اس کو بطور حربہ استعمال کر رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اس بابت وطن عزیز کے خصوصاً دانشور حلقے ، حقیقی سول سوسائٹی اور ریاست اس ضمن میں موثر اور ٹھوس ’’قومی بیانیے‘‘ کی اشد ضرورت کو محسوس کرے گی اور اس بیانیے کی ترتیب و تشکیل کی جانب ہنگامی بنیادوں پر پیش رفت کی جائے گی۔
دوسری جانب کچھ روز قبل سات اپریل کو سانحہ ’’ گیاری ‘‘ کی 6 ویں برس منائی گئی کیونکہ سات اپریل 2012 کو سیاچن کے مقام ’’ گیاری ‘‘ میں برفانی تودہ گرنے سے پاک فوج کے 140 افسر اور جوان ہزاروں ٹن برف اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے ۔ ان کے یومِ شہادت پر قوم کے ہر فرد نے اپنے ان جاں نثاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ یوں بھی افواجِ پاکستان نے ہمیشہ ہی وطن کی خدمت کے لئے اپنے لہو سے ایسے چراغ روشن کیے ہیں جن کی روشنی آئندہ نسلوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ثابت ہو گی ۔
سانحہ گیاری کے چھ برس مکمل ہونے پر مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو پیش کش کی جا چکی ہے کہ سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک اپنی افواج واپس بلا لیں تا کہ نہ صرف پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکان روشن ہوں بلکہ سیاچن پر ہونے والے اخراجات دونوں ملک اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کر سکیں اور ماحول کو در پیش خطرات میں بھی کمی آ سکے ۔ ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ 1984 میں بھارتی فوج نے سیاچن پر اپنا ناجائز تسلط جما لیا تھا جس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی فوجیں وہاں متعین کرنا پڑیں ۔ یوں ہندوستان کے اس ناجائز قبضے کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے معاشی مسائل پر خاصا بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ قابض انڈین آرمی نے گذشتہ 34 برسوں میں اس گلیشئر کو اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کی جانب آنے والے پانی پر اس کے اثرات خطرناک حد تک مرتب ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ گلیشئر پگھل کر ناقابلِ تصور خطرات کا باعث بن سکتا ہے ۔
یاد رہے کہ 2005 میں پاک بھارت حکومتیں اس امر پر متفق ہو چکی تھیں کہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلا لی جائیں۔ تب بھارتی وزیر اعظم ’’ منموہن سنگھ ‘‘ نے تو باقاعدہ اس امر کا اعلان بھی کیا تھا کہ سیاچن کو ’’پیس پارک‘‘میں تبدیل کر دیا جائے گا مگر پھر انڈین آرمی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا یوں بھارتی فوج کے ویٹو کی وجہ سے یہ معاہدہ پروان نہ چڑھ سکا ۔ اس کے بعد بھی پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ ایسی پیش کش سامنے آئیں مگر ’’ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ ۔۔۔!!!
پندرہ اپریل بروز اتوار روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)