Newspaper Article 17/10/2018
اسے بر صغیر کی تاریخ کا شاید عجوبہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی پوری تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ قریباً بارہ سو سال تک مسلمانوں نے وہاں حکومت کی اور تعداد میں ہندؤں سے انتہائی کم ہونے کے باوجود بھارت کے طول و عرض پر مسلمانوں کی حکومت رہی ۔ مبصرین کے مطابق اس زمینی حقیقت کو کسی بھی طور محض اتفاق قرار دینا مشکل ہے کہ زیادہ تر ہندو قوم محکوم رہی، یقیناًاس صورتحال کے لئے ہندوستان کے حکمران خود اپنے علاوہ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے، خصوصاً پچھلے چند روز سے دہلی سرکار نے جو روش اپنا رکھی ہے، بادی النظر میں وہ بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ شاید اونچی ذاتی کے ہندوؤں کو زیادہ دیر تک اپنی آزادی راس نہیں آتی تبھی تو وہ نئے سرے سے کوشش کر رہے ہیں کہ گذشتہ 70 سال سے آزاد ہندوستان کی تاریخ پھر کوئی نئی کروٹ لے اور واقعات و حوادث ایسا روپ اختیار کریں کہ ہندوستان کی آزادی نئے سرے سے قصہ پارینہ بن کر رہ جائے۔
سنجیدہ ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام کو جس طور پیلٹ گنوں کے ذریعے نشانہ بنا کر ان کی بینائی چھینی جا رہی ہے، یہ ایسا عمل ہے جس کے سامنے سفاکی اور بربریت جیسے الفاظ بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں، مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں کی گھناؤنی روش پر کہ وہ اپنی حرکتوں سے بار بار یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بھلے ہی وہ رقبے اور آبادی کے حجم میں خاصے بڑے ہیں مگر سوچ کے اعتبار سے وہ پستگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ محض مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی مسلمانوں سکھوں عیسائیوں کی بابت ان کی یہی سوچ دن بہ دن پنپ رہی ہے اور اس کے زہریلے پن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے منطقی نتائج کسی بھی معاشرے کے لئے آنے والے دنوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی جیوتشی یا نجومی ہونا ہر گز ضروری نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 15 اگست 1947 کو جب موجودہ ہندوستان نے اپنی آزادی حاصل کی تو اکثر غیر جانبدار حلقوں کو امید تھی کہ چونکہ ہندوستان خود صدیوں تک غلام رہ چکا ہے لہذا اسے بخوبی علم ہو گا کہ محکوم اور مظلوم قوموں کی نفسیات کیا ہوتی ہیں، ایسے میں شاید وہ محکوم قوموں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو اور اپنی سینکڑوں برس کی دیرینہ روش کو تبدیل کرنے کی سعی کرے مگر وقت اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ اونچی ذات کے ہندوؤں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ اس ابدی سچائی کو پھر سے دہرانے پر تلے ہوئے ہیں کہ ’’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے بالعموم آج تک کسی نے کوئی سابق حاصل نہیں کیا‘‘
واضح رہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے انڈین آرمی کے سربراہ کی ہرزہ سرائی پر کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور جنگ کیلئے بالکل تیار ہیں ، مگر پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں ، امن کی خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے اور اگر کسی نے صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے اوربھرپور جواب دیں گے۔بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں سیاسی تحریک کا سامنا ہے جسے وہ دبا نہیں پا رہے ،ان تمام چیزوں سے توجہ ہٹانے بھارت نے آج یہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسا موقف اپنایا ہے جس میں پاکستان اور پاکستان دشمنی آئے۔
اس پیرائے میں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دہلی کے حکمرانوں نے اپنی اکہتر سالہ تاریخ میں ایک جانب اپنے ابتدائی ایام میں ہی دکن حیدر آباد کو نام نہاد ’’پولیس ایکشن ‘‘ کے نام پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سرکردگی میں ہڑپ کیا، جونا گڑھ اور مناور پر ناجائز تسلط جمایا اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر قبضہ جما کر وہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوذ نہ صرف جاری ہے بلکہ ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور سینکڑوں نوجوانوں کی بے نور آنکھیں عالمی برادری کی طرف انصاف کے حصول کے لئے سوالیہ نگاہوں سے تک رہی ہیں کہ شاید عالمی امن کے یہ ٹھیکیدار اور انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن اپنے دعووں کی کچھ تو لاج رکھیں۔ دوسری جانب دہلی کا یہ حکمران گروہ ’’کانٹا سے کانٹا نکالنے ‘‘ کے نام پر اپنی قابل مذمت حکمت عملی کے ذریعے مقبوضہ ریاست میں انسانیت کو مسلسل روندھے چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز بھی مودی اور جنرل بپن راوت نے ایسی زبان استعمال کی جس کی بابت محض یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے‘‘۔
سنجیدہ ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام کو جس طور پیلٹ گنوں کے ذریعے نشانہ بنا کر ان کی بینائی چھینی جا رہی ہے، یہ ایسا عمل ہے جس کے سامنے سفاکی اور بربریت جیسے الفاظ بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں، مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں کی گھناؤنی روش پر کہ وہ اپنی حرکتوں سے بار بار یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بھلے ہی وہ رقبے اور آبادی کے حجم میں خاصے بڑے ہیں مگر سوچ کے اعتبار سے وہ پستگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ محض مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی مسلمانوں سکھوں عیسائیوں کی بابت ان کی یہی سوچ دن بہ دن پنپ رہی ہے اور اس کے زہریلے پن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے منطقی نتائج کسی بھی معاشرے کے لئے آنے والے دنوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے کوئی جیوتشی یا نجومی ہونا ہر گز ضروری نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 15 اگست 1947 کو جب موجودہ ہندوستان نے اپنی آزادی حاصل کی تو اکثر غیر جانبدار حلقوں کو امید تھی کہ چونکہ ہندوستان خود صدیوں تک غلام رہ چکا ہے لہذا اسے بخوبی علم ہو گا کہ محکوم اور مظلوم قوموں کی نفسیات کیا ہوتی ہیں، ایسے میں شاید وہ محکوم قوموں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو اور اپنی سینکڑوں برس کی دیرینہ روش کو تبدیل کرنے کی سعی کرے مگر وقت اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ اونچی ذات کے ہندوؤں نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ اس ابدی سچائی کو پھر سے دہرانے پر تلے ہوئے ہیں کہ ’’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے بالعموم آج تک کسی نے کوئی سابق حاصل نہیں کیا‘‘
واضح رہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے انڈین آرمی کے سربراہ کی ہرزہ سرائی پر کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور جنگ کیلئے بالکل تیار ہیں ، مگر پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں ، امن کی خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے اور اگر کسی نے صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے اوربھرپور جواب دیں گے۔بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں سیاسی تحریک کا سامنا ہے جسے وہ دبا نہیں پا رہے ،ان تمام چیزوں سے توجہ ہٹانے بھارت نے آج یہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسا موقف اپنایا ہے جس میں پاکستان اور پاکستان دشمنی آئے۔
اس پیرائے میں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دہلی کے حکمرانوں نے اپنی اکہتر سالہ تاریخ میں ایک جانب اپنے ابتدائی ایام میں ہی دکن حیدر آباد کو نام نہاد ’’پولیس ایکشن ‘‘ کے نام پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی سرکردگی میں ہڑپ کیا، جونا گڑھ اور مناور پر ناجائز تسلط جمایا اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر قبضہ جما کر وہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوذ نہ صرف جاری ہے بلکہ ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور سینکڑوں نوجوانوں کی بے نور آنکھیں عالمی برادری کی طرف انصاف کے حصول کے لئے سوالیہ نگاہوں سے تک رہی ہیں کہ شاید عالمی امن کے یہ ٹھیکیدار اور انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن اپنے دعووں کی کچھ تو لاج رکھیں۔ دوسری جانب دہلی کا یہ حکمران گروہ ’’کانٹا سے کانٹا نکالنے ‘‘ کے نام پر اپنی قابل مذمت حکمت عملی کے ذریعے مقبوضہ ریاست میں انسانیت کو مسلسل روندھے چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز بھی مودی اور جنرل بپن راوت نے ایسی زبان استعمال کی جس کی بابت محض یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے‘‘۔
چوبیس ستمبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)