Newspaper Article 04/10/2018
سبھی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 73 واں اجلاس جاری ہے ۔ اسی تناظر میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ بھی نیویارک میں ایک ہی چھت تلے موجود ہیں۔ البتہ دہلی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دونوں کے مابین کسی قسم کی بات چیت کی نوبت نہیں آئی، یاد رہے کہ گذشتہ روز سشما سوراج اور پاک وزیرخارجہ کے مابین کوئی گفت و شنید نہیں ہوئی اور اس صورتحال کی ساری ذمہ داری دہلی کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی وزیراعظم تو باقاعدہ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کہہ چکے تھے کہ بھارت اگر ایک قدم چلے گا تو ہم دو قدم چلنے کو تیار ہیں مگر بھارت ہمیشہ کی مانند جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزرائے خارجہ کی ملاقات پر رضامندی کااظہار کر کے اپنے اس دعوے سے بھی فوراً مکر گیا اور اس کی یہ کہہ مکرنیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان معاملات کی ایک پوری تاریخ ہے جس سے تمام عالم بخوبی آگاہ ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ بھارتی حکمران سی پیک کے خلاف سازشوں کا لا متناہی سلسلہ چھیڑے ہوئے ہیں اور اپنی ان سازشوں کے ذریعے پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی سعی کر رہے ہیں، خصوصاً پاک چین تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ تبھی تو پاک سپہ سالار نے چند روز قبل واشگاف الفاظ میں اس امر کا اعادہ کیا کہ پاک چین تعلقات کو دنیا کی کوئی بھی قوت (انشاء اللہ) نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔
ماہرین نے موجودہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے حدود اربع پر نظر ڈالتے کہا ہے کہ واجپائی مارچ 1988 میں بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے سشما سوراج کو بھارت کا وزیر اطلاعات مقرر کیا، یاد رہے کہ موصوفہ کے خاندان کا تعلق قیام پاکستان سے قبل پاک پنجاب سے تھا۔ 1947 میں یہ کنبہ نقل مکانی کر کے انبالہ جا بسا اور وہیں 14 فروری 1952 کو سشما پیدا ہوئیں، انھوں نے پنجاب یونیورسٹی (بھارتی پنجاب) سے بی اے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، انھیں سماجی اور ادبی سرگرمیوں سے خاصا لگاؤ تھا شاید ایسی وجہ سے 1978 تا 1982 وہ صوبہ ہریانہ کے ہندہ ساہتیہ سمیلن (ہندو ادبی بورڈ) کی سربراہ رہیں۔ سیاسی لحاظ سے وہ شروع سے ہی کٹر ہندو جماعت بھارتی جن سنگھ (جو اب بی جے پی ہے) کی سرگرم رکن تھیں۔ 1977 میں وہ ہریانہ کی صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور ہریانہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ دیوی لعل نے انھیں اپنی کابینہ میں وزیر خوراک و سپلائی بنا دیا یوں انھیں محض 25 سال کی عمر میں بھارت کی کم عمر ترین خاتون وزیر (صوبائی) ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔ انھیں اچھی مقرر ہونے کے علاوہ شاید پبلک ریلیشنگ کا فن بھی خوب آتا تھا تب ہی 1988 میں بی جے پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے تک جا پہنچیں۔ اس دوران انھیں پارٹی کی مرکزی قیادت خصوصاً واجپائی اور ایڈوانی کا مکمل اعتماد حاصل ہو چکا تھا، اسی وجہ سے اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی واجپائی نے انھیں اطلاعات و نشریات جیسی اہم وزارت سونپ دی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ ان کے شوہر نامدار ’’کوشل سوراج‘‘ ان دنوں شمال مشرقی بھارت کے شورش زدہ صوبے میزورام کے گورنر تھے جو 37 سال کی عمر میں بھارت کے کم عمر ترین گورنر بنے۔انھیں میزورام کے امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے اس لئے 1979 تا 1986 وہ اس صوبے کے گورنر کے مشیر رہے اور 1990 سے 1993 تک میزورام کے گورنر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے جس کا نام بانسری سوراج ہے۔ سشما سوراج کو جرمن اور سنسکرت زبانوں پر خاصا عبور حاصل ہے۔ ستمبر 1998 میں انھیں وزارت اطلاعات سے ہٹا کر صوبہ دہلی کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ بھارتی تاریخ میں شاید ہی ایسی مثال ہو کہ بیک وقت خاوند کسی صوبے کا گورنر اور اس کی اہلیہ دوسرے صوبے کی وزیراعلیٰ ہو۔ یاد رہے کہ سشما سوراج انڈیا اسرائیل فرینڈشپ سوسائٹی کی سربراہ بھی رہیں۔
انسان دوست حلقوں نے اس ساری صورتحال کا تجزیہ کرتے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی ماضی کی طرح ان دنوں بھی پورے عروج پر ہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان کی بابت ایسے ایسے اشتعال انگیز بیانات دیئے جا رہے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے کے شایان شان قرار نہیں دیئے جا سکتے حالانکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جانب سے عرصہ دراز سے اس موقف کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ ،کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لئے آمادہ ہے تا کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کا سلسلہ شروع کیا جا سکے اور جنوبی ایشیاء بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی مانند حقیقی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے، لیکن پاکستان کی ان کاوشوں کا کوئی بھی نتیجہ نہ نکلا گویا
نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی
یہاں آتے آتے،وہاں جاتے جاتےأ دوسری جانب گذشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد تنازعہ کے 1994 کے کیس کی دوبارہ سماعت سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اسلام میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد لازمی نہیں۔ مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی روزافزوں تقویت حاصل کر رہی ہے اور اسے مکمل روپ سے دہلی سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ سنگھ پریوار کی جانب سے ہندوستان کو رام راجیے اور ہندو سامراج قرار دیے جانے کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے اور بھارت کے طول و عرض میں موب لنچنگ کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جن میں معصوم مسلمانوں کو جرم بے گناہی میں ہندو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ عالمی برادری کو اس ہندو جنون کی روک تھام کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ورنہ یہ محض علاقائی نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی تہہ و بالا کر دے گا۔یکم اکتوبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
ماہرین نے موجودہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے حدود اربع پر نظر ڈالتے کہا ہے کہ واجپائی مارچ 1988 میں بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے سشما سوراج کو بھارت کا وزیر اطلاعات مقرر کیا، یاد رہے کہ موصوفہ کے خاندان کا تعلق قیام پاکستان سے قبل پاک پنجاب سے تھا۔ 1947 میں یہ کنبہ نقل مکانی کر کے انبالہ جا بسا اور وہیں 14 فروری 1952 کو سشما پیدا ہوئیں، انھوں نے پنجاب یونیورسٹی (بھارتی پنجاب) سے بی اے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، انھیں سماجی اور ادبی سرگرمیوں سے خاصا لگاؤ تھا شاید ایسی وجہ سے 1978 تا 1982 وہ صوبہ ہریانہ کے ہندہ ساہتیہ سمیلن (ہندو ادبی بورڈ) کی سربراہ رہیں۔ سیاسی لحاظ سے وہ شروع سے ہی کٹر ہندو جماعت بھارتی جن سنگھ (جو اب بی جے پی ہے) کی سرگرم رکن تھیں۔ 1977 میں وہ ہریانہ کی صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور ہریانہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ دیوی لعل نے انھیں اپنی کابینہ میں وزیر خوراک و سپلائی بنا دیا یوں انھیں محض 25 سال کی عمر میں بھارت کی کم عمر ترین خاتون وزیر (صوبائی) ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔ انھیں اچھی مقرر ہونے کے علاوہ شاید پبلک ریلیشنگ کا فن بھی خوب آتا تھا تب ہی 1988 میں بی جے پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے تک جا پہنچیں۔ اس دوران انھیں پارٹی کی مرکزی قیادت خصوصاً واجپائی اور ایڈوانی کا مکمل اعتماد حاصل ہو چکا تھا، اسی وجہ سے اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی واجپائی نے انھیں اطلاعات و نشریات جیسی اہم وزارت سونپ دی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ ان کے شوہر نامدار ’’کوشل سوراج‘‘ ان دنوں شمال مشرقی بھارت کے شورش زدہ صوبے میزورام کے گورنر تھے جو 37 سال کی عمر میں بھارت کے کم عمر ترین گورنر بنے۔انھیں میزورام کے امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے اس لئے 1979 تا 1986 وہ اس صوبے کے گورنر کے مشیر رہے اور 1990 سے 1993 تک میزورام کے گورنر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے جس کا نام بانسری سوراج ہے۔ سشما سوراج کو جرمن اور سنسکرت زبانوں پر خاصا عبور حاصل ہے۔ ستمبر 1998 میں انھیں وزارت اطلاعات سے ہٹا کر صوبہ دہلی کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ بھارتی تاریخ میں شاید ہی ایسی مثال ہو کہ بیک وقت خاوند کسی صوبے کا گورنر اور اس کی اہلیہ دوسرے صوبے کی وزیراعلیٰ ہو۔ یاد رہے کہ سشما سوراج انڈیا اسرائیل فرینڈشپ سوسائٹی کی سربراہ بھی رہیں۔
انسان دوست حلقوں نے اس ساری صورتحال کا تجزیہ کرتے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی ماضی کی طرح ان دنوں بھی پورے عروج پر ہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان کی بابت ایسے ایسے اشتعال انگیز بیانات دیئے جا رہے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے کے شایان شان قرار نہیں دیئے جا سکتے حالانکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جانب سے عرصہ دراز سے اس موقف کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ ،کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لئے آمادہ ہے تا کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کا سلسلہ شروع کیا جا سکے اور جنوبی ایشیاء بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی مانند حقیقی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے، لیکن پاکستان کی ان کاوشوں کا کوئی بھی نتیجہ نہ نکلا گویا
نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی
یہاں آتے آتے،وہاں جاتے جاتےأ دوسری جانب گذشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد تنازعہ کے 1994 کے کیس کی دوبارہ سماعت سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اسلام میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد لازمی نہیں۔ مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی روزافزوں تقویت حاصل کر رہی ہے اور اسے مکمل روپ سے دہلی سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ سنگھ پریوار کی جانب سے ہندوستان کو رام راجیے اور ہندو سامراج قرار دیے جانے کا مطالبہ ہوتا رہتا ہے اور بھارت کے طول و عرض میں موب لنچنگ کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جن میں معصوم مسلمانوں کو جرم بے گناہی میں ہندو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ عالمی برادری کو اس ہندو جنون کی روک تھام کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ورنہ یہ محض علاقائی نہیں بلکہ عالمی امن کو بھی تہہ و بالا کر دے گا۔یکم اکتوبر کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)