Skip to content Skip to footer

اقوام متحدہ کا وجود کیوں خطرے میں ۔۔۔؟؟

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

گذشتہ لمبے عرصے سے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری دہلی سرکار کی ریاستی دہشتگردی سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے ۔ اس پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا تھا اور اس کے قیام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مختلف ممالک کے مابین تنازعات کو پر امن ڈھنگ سے حل کرنے کے ضمن میں یہ تنظیم بنیادی کردار نبھائے تا کہ نسل انسانی کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے اور پوری دنیا سے جہالت اور افلاس جیسی برائیوں کا خاتمہ کر کے مجموعی عالمی ماحول کو مثالی بنایا جا سکے ۔
اس ضمن میں تمام غیر جانبدار حلقوں نے اقوامِ متحدہ سے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے بنیادی مقاصد کے حصول کی جانب زیادہ موثر ڈھنگ سے توجہ دے تا کہ بنی نوع انسان کی اجتماعی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے ۔ دنیا بھر کے رہنماؤں اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور حلقوں نے بھی اس عالمی ادارے کی کارکردگی کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔
اسی مناسبت سے با ضمیر عالمی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقوام متحدہ نے گذشتہ ستر سال میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو عام کرنے میں خاصا کلیدی رول ادا کیا ہے مگر کچھ معاملات ایسے ہیں جن کے حوالے سے اس ادارے کی کارکردگی توقعات سے بہت کم تر رہی ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں اس عالمی تنظیم کی کارکر دگی خاصی گہنا کر رہ گئی ہے اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن عظیم مقاصد کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا یہ ادارہ ان کے حصول کی جانب خاطر خواہ ڈھنگ سے پیش رفت نہیں کر سکا ۔ اور اس سلسلے کی دو نمایاں ترین مثالیں تنازعہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ ہیں جسے ستر سال سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حل نہیں کیا جا سکا اور ان خطوں میں بھارت اور اسرائیل آج بھی وہاں کے نہتے عوام کے خلاف بد ترین قسم کی ریاستی دہشتگردی کا گھناؤنا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور کشمیر اور فلسطین میں بے بس عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ اپنی پوری شدت سے جاری ہے اور یہ واقعات نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ پوری عالمی برادری کے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔
اسے اتفاق کہا جائے یا حالات کی ستم ظریفی کہ ستر برس بیشتر جموں و کشمیر کے حریت پسند عوام نے بھارتی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی خاطر اپنی الگ حکومت قائم کی تھی مگر دوسری طرف ہندوستان نے مقبو ضہ ریاست کے دو تہائی سے زیادہ حصے پر اپنا نا جائز تسلط قائم کر رکھا ہے اور اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر اب تک ایک لاکھ کے لگ بھگ معصوم کشمیریوں کو زندہ رہنے کے بنیادی حق سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا گیا ۔ بے شمار کشمیری خواتین اور معصوم بچے آج بھی ہندوستانی فوج کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں ہر طرح کے غیر انسانی مظالم سہہ رہے ہیں ۔
اور یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں ہو رہا ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اگست 1948 ء اور جنوری 1949 میں ایک سے زائد مرتبہ متفقہ طور پر یہ قرار دادیں منظور کر چکی ہیں کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کی بابت حتمی فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور اقوام عالم کی نگرانی میں کشمیر یوں کو رائے شماری کا آزادانہ اور منصفانہ موقع فراہم کیا جائے گا تا کہ وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کے خواہش مند ہیں یا پھر بھارتی غلامی میں ہی رہنے کو تیار ہیں ۔اس سارے معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیری عوام کے ساتھ حق خود ارادیت کا جو وعدہ پوری عالمی برادری نے کیا تھا خود بھارت بھی اس میں نہ صرف شریک تھا بلکہ وہ خود ہی اس تنازعے کو لے کر اقوام متحدہ گیا تھا ۔ ایسی واضح صورتحال کے باوجود کشمیری عوام کو دیئے گئے عہد کی پاسداری نہ کرنے سے یقیناً اس عالمی ادارے کا وقار خاصی حد تک مجروح ہوا ہے ۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہندوستانی حکومت نے نہتے کشمیری عوام کے خلاف ظلم و زیادتی اور مختلف سازشی ہتھکنڈوں کا سلسلہ برابر جاری رکھا ہوا ہے حالانکہ کشمیری عوام کی بھاری اکثریت اپنے عمل سے بار بار اس حقیقت کو واضح کر چکی ہے کہ وہ بھارتی آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی خود کو بھارتی شہری سمجھتے ہیں ۔ کشمیری عوام نے اپنی اس عزم کا اعادہ گذشتہ دو برس میں مسلسل مزاحمت کے مظاہرے سے بھی کیا ہے ۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو اس پیش رفت سے بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ مقبوضہ ریاست کے عوام بھارتی قبضے کے کس قدر خلاف ہیں ۔ ایسے میں اگر یہ بین الاقوامی ادارہ اپنی ساکھ کو مزید مجروح نہیں کرنا چاہتا تو اسے فوری طور پر کشمیر کے تنازعے کو اپنی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب عملی پیشی رفت کرنی چاہیے وگرنہ غیر جانبدار ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اقوام متحدہ بھی لیگ آف نیشنز جیسے حشر سے دو چار ہو سکتی ہے ۔
توقع کی جانی چاہیے کہ اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر اپنا محاسبہ کر کے مظلوم کشمیریوں، خود بھارت کے اندر بسنے والی اقلیتوں اور فلسطین کے عوام کو بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اپنا انسانی اور اخلاقی فریضہ نبھائے گا ۔

بارہ جون کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements